Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 30
وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَا ذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ١ؕ قَالُوْا خَیْرًا١ؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ لَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ١ؕ وَ لَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَۙ
وَقِيْلَ : اور کہا گیا لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا : ان لوگوں سے جنہوں نے پرہیزگاری کی مَاذَآ : کیا اَنْزَلَ : اتارا رَبُّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے خَيْرًا : بہترین لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو لوگ اَحْسَنُوْا : بھلائی کی فِيْ : میں هٰذِهِ : اس الدُّنْيَا : دنیا حَسَنَةٌ : بھلائی وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ : اور آخرت کا گھر خَيْرٌ : بہتر وَلَنِعْمَ : اور کیا خوب دَارُ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کا گھر
اور جو لوگ بچتے رہتے ہیں ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا چیز نازل کی ہے ؟ تو وہ کہتے ہیں بڑی خیر نازل فرمائی ہے،42۔ جن لوگوں نے نیکی کی، ان کے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور عالم آخرت تو اور (زیادہ) بہتر ہے،43۔ اور اہل تقوی کا وہ گھر واقعی اچھا ہے
42۔ یعنی ایسا کلام جو سرتا سر خیروبرکت ہی ہے۔ (آیت) ” للذین اتقوا “۔ یعنی وہ لوگ جو کفر وشرک سے بچے رہتے ہیں۔ قال اصحابنا یرید الذین اتقوا الشرک وایقنوا انہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ (کبیر) یعنی المومنین (بیضاوی) آیت نمبر 24 میں ابھی مکذبین قرآن کا ذکر آچکا ہے کہ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا چیزاتری ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اساطیر الاولین۔ اب ٹھیک ان کے مقابل گروہ مومنین کا ذکر ہے، کہ جب ان سے قرآن کی بابت سوال کیا جاتا ہے، تو وہ جواب میں اسے سرتاسرخیروبرکت بتاتے ہیں۔ 43۔ اس دنیا کی بھلائی سے تو مراد یہاں کی کل نعمتیں ہوسکتی ہیں، مثلا فتح ومال غنیمت، نیک نامی، فارغ البالی، اطمینان قلب، وغیرہ اور پھر سب سے بڑھ کر اجر آخرت کا وعدہ وبشارت۔ اور عالم آخرت اس سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر بہتر اس لحاظ سے ہوگا کہ اول تو وعدہ اجر کے تحقق و ظہور کا مقام وہی ہوگا، اور پھر وہاں کی نعمتیں کیا بہ لحاظ تعداد، کیا بہ لحاظ مقدار اور کیا بہ لحاظ دوام و قیام، اور کیا بہ لحاظ کیفیت ونوعیت، دنیا کی نعمتوں سے کوئی نسبت ہی نہ رکھتی ہوں گی، (آیت) ” الذین احسنوا فی ھذہ الدنیا حسنۃ “۔ یعنی اہل ایمان، وھؤلاء مومنون (ابن جریر، عن قتادۃ)
Top