Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 50
یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۠۩  ۞   ۧ
يَخَافُوْنَ : وہ ڈرتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب مِّنْ : سے فَوْقِهِمْ : ان کے اوپر وَيَفْعَلُوْنَ : اور وہ (وہی) کرتے ہیں مَا : جو يُؤْمَرُوْنَ : انہیں حکم دیا جاتا ہے
وہ ڈرتے رہتے ہیں اپنے پروردگار سے جو ان پر بالا دست ہے، اور وہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم ملتا رہتا ہے،72۔
72۔ یہ سب دیوتا پرستی اور ملائکہ پرستی کی تردید میں ارشاد ہورہا ہے۔ (آیت) ” من فوقھم “ فوق سے یہاں کھلی ہوئی مراد فوقیت معنوی یا غلبہ ہے۔ ورنہ محض سمت یا جہت کے فوق سے تو خوف پیدا ہونے کی کوئی صورت نہیں۔ المراد بالفوقیۃ الفوقیۃ بالقھر والقدرۃ لانھاھی الموجبۃ للخوف (کبیر) اے عالیا علیھم بالقھر (جلالین) راغب نے فوق کے استعمال کے چھ موقع بتائے ہیں۔ مکان، زمان، جسم، عدد، منزلت اور انہی میں سے ایک معنی فوقیت بہ اعتبار قہر و غلبہ کے رکھے ہیں، تو ریت موجودہ میں بعض فرشتوں کو عاصی ونافرمان فرشتہ کہہ کر پیش کیا گیا ہے۔ قرآن مجید اس تخیل کی جڑ ہی کاٹے دیتا ہے۔ قرآن فرشتوں کو بار بار تمامتر معصوم ہستی کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ وھی دلالۃ قاھرۃ قاطعۃ علی عصمۃ الملائکۃ عن جمیع الذنوب (کبیر) (آیت) ” یخافون ربھم “۔ سوال یہ ہوا ہے کہ ملائکہ سے جب معصیت کا امکان ہی نہیں، تو وہ پروردگار سے ڈرتے کیوں رہتے ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ یہ خوف وہ نہیں، جو اپنی معصیت سرشتی سے پیدا ہوتا ہے، بلکہ یہ وہ خوف ہے جو محض عظمت الہی کے احساس اور حق تعالیٰ کی ہیبت واجلال سے پیدا ہوتا ہے۔ اس قسم کا خوف جو عوام سے کہیں زیادہ خواص واہل معرفت کے دلوں میں اور سب سے بڑھ کر حضرت انبیاء کے سینوں میں موجزن رہا کرتا ہے۔ امام المفسرین رازی (رح) نے بہت خوب فرمایا ہے۔ ذلک الخوف خوف الاجلال ھکذا روی عن ابن عباس ؓ والدلیل علی صحتہ قولہ تعالیٰ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء وھذا یدل علی انہ کلما کانت معرفۃ اللہ اتم کان الخوف عنہ اعظم وھذا الخوف لایکون الا خوف الاجلال والکبریاء (کبیر) اور جب عصمت ملائکہ کی یہ ایک اصل سمجھ میں آگئی تو اس سے خود بخود بہت سے بےسند اور غلط لیکن زبان زد عوام قصوں کی جڑ کٹی جاتی ہے، جن میں فرشتوں کو کبائر کے مرتکب کی حیثیت پیش کیا گیا ہے۔ مثلا ہاروت وماروت کی بدنامی زہرہ کے ساتھ، یا خود ابلیس کا زمرۂ ملائکہ میں سے سمجھا جانا ہے۔
Top