Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 77
وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَاۤ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے غَيْبُ : پوشیدہ باتیں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَآ : اور نہیں اَمْرُ السَّاعَةِ : کام ( آنا) قیامت اِلَّا : مگر (صرف) كَلَمْحِ الْبَصَرِ : جیسے جھپکنا آنکھ اَوْ : یا هُوَ : وہ اَقْرَبُ : اس سے بھی قریب اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
اور اللہ ہی کے لئے (خاص) ہیں آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں،121۔ اور قیامت کا معاملہ بھی ایسا ہوگا جیسے آنکھ کا جھپکنا، بلکہ اس سے بھی جلد تر بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے،122۔
121۔ (جو ایک فرع ہے حق تعالیٰ کے علم کامل و محیط کی) للہ کی ترکیب ہی سے اشارہ ہوگیا کہ یہ علم غیب خاصہ صرف حق تعالیٰ کا ہے، جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ للہ تعالیٰ خاصہ لا لاحد غیرہ استقلالا ولا اشتراکا (روح) یفید الحصر معناہ ان العلم بھذہ الغیوب لیس الا للہ (کبیر) 122۔ آیت کے شروع میں بیان حق تعالیٰ کے کمال علم کا ہے، اور آخر آیت میں بیان کمال قدرت کا، دونوں کے درمیان ذکر قیامت کا ہے۔ جو قبل وقوع دیکھئے تو ایک مثال ہے کمال علم کی، اور بعد وقوع کے لحاظ سے نظر کیجئے تو ایک مثال ہے کمال قدرت کی ! (آیت) ” الاکلمح البصر “ یعنی ایسا ہی آنا فانا “۔ عام محاورۂ انسانی میں کسی شے کے فی الفور واقع ہوجانے کے لئے طریق تعبیر یہی ہے۔ الغرض من التشبیہ بیان مقدار زمان وقوعہ وتحدیدہ (روح) والمراد منہ تقریر کمال القدرہ (کبیر) (آیت) ” اوھو اقرب “۔ اور یہاں بل کا مرادف ہے۔ اظہار شک وتردد کیلئے نہیں۔ اوقال الفراء بمعنی بل (روح) قیل بمعنی بل (بیضاوی) لاشبھۃ فی انہ لیس المراد طریقۃ الشک بل المراد بل ھو اقرب (کبیر) (آیت) ” امر الساعۃ “ سے مراد ہے مردوں میں جان پڑجانے کا ماجرا “۔
Top