Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 8
وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَ زِیْنَةً١ؕ وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَّالْخَيْلَ : اور گھوڑے وَالْبِغَالَ : اور خچر وَالْحَمِيْرَ : اور گدھے لِتَرْكَبُوْهَا : تاکہ تم ان پر سوار ہو وَزِيْنَةً : اور زینت وَيَخْلُقُ : اور وہ پیدا کرتا ہے مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور (اسی نے پیدا کئے) گھوڑے اور خچر اور گدھے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لئے بھی، اور وہ پیدا کرتارہتا ہے ایسی چیزیں جن کی تم کو خبر نہیں،11۔
11۔ اس عموم کے تحت میں جانوروں کے علاوہ تمام انسان کی ایجاد کی ہوئی سواریاں بھی قیامت تک کے لیے آگئیں۔ انسانی صنعت وصناعت کی مدد سے جو جو طریقے حمل ونقل کے نکلے ہیں، وہ آخر اللہ ہی کے خلق میں داخل ہیں۔ (آیت) ” والخیل والبغال والحمیر “۔ مشرک قوموں نے گھوڑے کی بھی پرستش کی ہے اور گدھے کی بھی۔ ملاحظہ ہوں انگریزی تفسیر القرآن کے حاشیے۔ عرب میں ان تینوں جانوروں کی بڑی اہمیت تھی، چناچہ ہٹی نے اپنی ” تاریخ عرب “ میں لکھا ہے کہ نجد کے گھوڑے اور حسا کے گدھے اور عمان کے خچر ساری دنیا میں مشہور ہیں۔ (صفحہ 22) (آیت) ” وزینۃ “۔ یعنی طرح طرح کے نفیس سامان آرایش وزینت انہی جانوروں سے حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ اور خود یہ جانور بھی تجمل وتزئین انسانی کا ذریعہ ہیں۔ ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر 8۔ نیز ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی، جن فقہاء نے گھوڑے اور خچر اور گدھے کے گوشت کو ناجائز قرار دیا ہے، ان کا ایک استدلال اس آیت سے بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ادھر جہاں انعام (مویشیوں) کا ذکر آیا، وہاں حق تعالیٰ نے (آیت) ” ومنھا تاکلون “۔ کی بھی تصریح کردی، اور یہاں صرف (آیت) ” لترکبوھا وزینۃ ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جانور صرف سواری اور آرائش کے کام کے ہیں، کھانے کے لیے نہیں۔
Top