Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 100
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ : اگر اَنْتُمْ : تم تَمْلِكُوْنَ : مالک ہوتے خَزَآئِنَ : خزانے رَحْمَةِ : رحمت رَبِّيْٓ : میرا رب اِذًا : جب لَّاَمْسَكْتُمْ : تم ضرور بند رکھتے خَشْيَةَ : ڈر سے الْاِنْفَاقِ : خرچ ہوجانا وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان قَتُوْرًا : تنگ دل
آپ کہہ دیجیے کہ اگر (کہیں) تم میرے پروردگار کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اس وقت ضرور تم (اس کے) خرچ ہوجانے کے اندیشہ سے (ہاتھ) روک لیتے انسان ہے ہی بڑا تنگ دل،145۔
145۔ (چنانچہ اس موقع پر بھی انسان بخل وتنگ دلی ہی سے کام لیتا) (آیت) ” لوانتم۔۔۔ ربی “۔ یعنی پروردگار عالم کی رحمتوں کی ذخیرہ کا جو غیر محدود ہے، مالک انسان ہوتا اور ان کی تقسیم اس کے اختیار میں ہوتی۔ (آیت) ” خزآئن رحمۃ ربی “۔ لفظ عام ہے۔ ہر قسم کے کمالات اور جملہ اقسام نعمت پر شامل۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ اشارہ نعمت نبوت کی جانب ہے۔ آیت میں فطرت بشری کا بیان ہے کہ انسان تو حرص وبخل کا پتلا ہے، یہاں تک کہ یہ نعمتیں غیر محدود ہیں ان کے بھی تقسیم میں اسے ڈرلگا رہتا ہے کہ یہ کہیں ختم نہ ہوجائیں۔
Top