Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور انسان برائی کی درخواست بھی (اسی تقاضہ سے) کرتا ہے (جس طرح) بھلائی کی درخواست اور انسان ہے ہی جلد باز،19۔
19۔ ( اور اپنے انجام پر غور نہ کرنے والا) (آیت) ” یدع الانسان “۔ یہاں الانسان سے مراد ایک خاص قسم کا انسان یعنی کافر انسان ہے۔ والمراد بالانسان الجنس اسند الیہ حال بعض افرادہ وھو الکافر والیہ یشیر کلام ابن عباس ؓ (روح) (آیت) ” یدع۔۔ بالخیر “۔ جن چیزوں کا لازمی نتیجہ عذاب الہی میں مبتلا ہونا ہے ان کی تمنا کرتے رہنا، اپنے کو عذاب یا برائی کی دعوت ہی دنیا ہے۔ (آیت) ” کان الانسان عجولا “۔ اس کے ماتحت وہ انسان نہیں آتے جنہوں نے اپنے اتباع شریعت سے مہذب ومزین کرلیا ہے۔ اس ذرا سے فقرہ میں گمراہ و باطل پرست انسان کی ساری ذہینت کی تشریح آگئی، ہر معصیت ہر فسق، ہر کفر کی طرف لے جانے والی چیز انسان کی یہی عجلت پسندی اور فوری لذت کی تمنا ہوتی ہے۔ اگر ذرا وہ سوچ سمجھ سے کام لے لیاکرے تو کبھی ان نتائج کی نوبت ہی نہ آئے۔
Top