Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 33
وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا
وَ : اور لَا تَقْتُلُوا : نہ قتل کرو النَّفْسَ : جان الَّتِيْ : وہ جو کہ حَرَّمَ اللّٰهُ : اللہ نے حرام کیا اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَمَنْ : اور جو قُتِلَ : مارا گیا مَظْلُوْمًا : مظلوم فَقَدْ جَعَلْنَا : تو تحقیق ہم نے کردیا لِوَلِيِّهٖ : اس کے وارث کے لیے سُلْطٰنًا : ایک اختیار فَلَا يُسْرِفْ : پس وہ حد سے نہ بڑھے فِّي الْقَتْلِ : قتل میں اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے مَنْصُوْرًا : مدد دیا گیا
اور جس شخص (کی جان) کو اللہ نے محفوظ قرار دیا ہے اسے قتل مت کرو ہاں مگر حق پر،47۔ اور جو کوئی ناحق قتل کیا جائے گا سو ہم نے اس کے وارث کو اختیار دے دیا ہے،48۔ سو (اسے چاہیے کہ) قتل کے باب میں حد سے آگے نہ بڑھے،49۔ بیشک وہ شخص قابل طرف داری کے ہے،50۔
47۔ یعنی جب تک کوئی شرعی سبب وجوب قتل یا جواز قتل کا نہ پیدا ہوجائے اس وقت تک قتل ہرگز جائز نہ ہوگا۔ (آیت) ” ولا تقتلوا “۔ قتل یہاں اپنے وسیع لغوی معنی ہلاک کے مرادف ہے۔ محدود اصطلاحی فقہی معنی میں نہیں۔ جان لے لینے کی ہر صورت پر شامل ہے۔ یہ مراد نہیں کہ صرف دھار دار آہنی آلہ سے جان نہ لو۔ (آیت) ” النفس التی حرم اللہ “۔ اور جان تو ہر انسان کی محفوظ ہی ہے۔ تاآنکہ کوئی خاص سبب حسب قواعد شرعی اس کے واجب القتل یا مباح الدم ہونے کا نہ پیدا ہوجائے۔ 48۔ (قصاص طلب کرنے گا) تسلطا علی القاتل فی الاقتصاص (مدارک) اے فی استیفاء القصاص من القاتل (کبیر) (آیت) ” ومن قتل مظلوما “۔ اس قتل ناحق کے تحت میں ہر وہ قتل آگیا جو بغیر وجہ شرعی کے ہو، مظلوم کے لفظ نے یہ بھی صاف کردیا کہ یہ قتل قتل عمد ہوگا، قتل خطا کو ظلم نہیں کہتے۔ اے غیر مستوجب للقتل (بیضاوی) یدل علی ان القتل عمد عدوان فان الخطالایسمی ظلما (بیضاوی) (آیت) ” ولیہ “۔ اسی ” وارث “۔ کے تحت میں حقیقی اور حکمی دونوں قسم کے وارث آگئے۔ (آیت) ” سلطنا “۔ سلطان کے معین یہاں حجۃ کیلئے گئے ہیں۔ یعنی ولی کو حق قصاص حاصل ہوگا۔ سلطانا اے حجۃ (جصاص، عن ابن عباس ؓ و سعید بن جبیر ومجاہد) 49۔ یعنی یہ نہ کرے کہ جوش انتقام میں قاتل کے ساتھ غیر قاتل کو بھی قتل کرڈالے یا اور کسی طرح زیادتیاں کرنے لگے۔ کہاں ایک طرف شریعت اسلامی کی یہ معتدل ومتوازن تعلیم اور کہاں بڑی بڑی مہذب فرنگی حکومتوں کا یہ علم متواتر کہ اگر اپنا ایک آدمی یا چند آدمی بھی مار دیئے گئے تو اس کے معاوضہ میں پوری پوری آبادیوں کو آگ لگا کر پھونک دیا یا بم کے گولے برسا کر ہلاک کرڈالا ! 50۔ قانون شریعت تو خود ہی اس کی حمایت، نصرت اور پشت پناہی پر آمادہ ہے اور حکومت اسلام خود ہی مقتول مظلوم کے معاملہ میں مدعی بنی جاتی ہے پھر ایسے شخص کے وارثوں پر یہ شامت کیوں سوار ہو کہ وہ خواہ مخواہ حدود شرع سے تجاوز کریں اور دوسروں پر ظلم زیادتی کرتے پھریں۔ (آیت) ” انہ “۔ ضمیر ولی کی جانب لی جائے یا خود مقتول کی، حاصل دونوں صورتوں کا ایک ہی ہے۔ مقتول دونوں ہیں۔ قال قتادۃ ھو عائد الولی، وقال مجاھد علی المقتول (جصاص)
Top