Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ : اور صاف کہ دیا ہم نے اِلٰى : طرف۔ کو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل فِي الْكِتٰبِ : کتاب لَتُفْسِدُنَّ : البتہ تم فساد کروگے ضرور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مَرَّتَيْنِ : دو مرتبہ وَلَتَعْلُنَّ : اور تم ضرور زور پکڑوگے عُلُوًّا كَبِيْرًا : بڑا زور
اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ جتلا دیا تھا کہ تم ملک میں دو بار بڑی خرابی پیدا کرو گے اور بڑا زور چلانے لگو گے،7۔
7۔ (خلق پر ظلم کرکے اور خالق کے قانون سے بغاوت اختیار کر کرکے) فساد فی الارض اور علو دونوں سے مراد حقوق اللہ وحقوق العباد دونوں کا اتلاف ہے اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ (آیت) ” وقضینا۔۔۔ الکتب “۔ یہ خبر بنی اسرائیل کو ان کے مختلف پیغمبروں کے ذریعہ سے سنا دی گئی تھی۔ خود توریت ہی کے بعض مقامات انذاری پیش گوئیوں سے بھرے ہوئے ہیں، مثلا احبار باب 26۔ یا استثناء باب 28۔ پھر اس کے علاوہ یرمیاہ نبی کی ہولناک پیش گوئیاں موجود ہیں اور حضرت یحییٰ نبی اور حضرت عیسیٰ نبی کی انذاری پیش گوئیاں، سب انہیں اسرائیلی صحیفوں میں ، (آیت) ” مرتین “۔ یوں تو قوم اسرائیل کی تاریخ تباہیوں اور بربادیوں ہی کی ایک مسلسل سرگزشت ہے، تاہم دو مرتبہ کی قیامت خیز ہلاکتیں تاریخ کے صفحات پر بہت گہرے الفاظ میں نقش ہیں۔ ایک بار 586 ؁ ق، م میں بخت نصر تاجدار بابل ونینوا کے ہاتھوں اور دوبارہ 70 ء ؁ میں رومی شہنشاہ طیطاؤس (TITUES) کے زمانہ میں۔
Top