Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 61
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ
وَاِذْ : اور جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں سے اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس قَالَ : اس نے کہا ءَاَسْجُدُ : کیا میں سجدہ کروں لِمَنْ : اس کو جسے خَلَقْتَ : تونے پیدا کیا طِيْنًا : مٹی سے
اور (وہ وقت بھی قابل ذکر ہے) جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کے آگے جھکو سو وہ (سب) جھکے ہاں ابلیس نہ جھکا وہ بولا کہ کیا میں اس کے آگے جھکوں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے ؟ ،92۔
92۔ (درآنحالیکہ مٹی کا بنا ہوا مخلوق مجھ سے جیسے آتشیں مخلوق سے کہیں پست ہوتا ہے) اس ابلیسی منطق کی پردہ دری ان تفسیری حاشیوں میں بیشتر کی جاچکی ہے۔ اس کے استدلال منطقیانہ کے صضری کبری دونوں غلط ہیں۔ نہ تو یہی ثابت ہے کہ مٹی ہر حال میں آگ سے پست تر ہے اور نہ یہ مسلم ہے کہ افضل ہے کسی حال میں بھی غیر افضل کے آگے نہ جھکے ! (آیت) ” اذقلنا للمآئکۃ ملائکہ جو افضل ترین مخلوق اس وقت تک تھے ان کے ضمن میں دوسری مخلوق کا بھی آجانا۔ (آیت) ” اسجدوا “۔ سجدہ سے یہاں لغوی نہ کہ اصطلاحی معنی کا مراد لیاجانا۔ (آیت) ” لادم “۔ آدم کا کعبۃ اللہ کی طرح صرف سمت سجدہ ہونا نہ کہ مسجود ہونا۔ (آیت) ” ابلیس “۔ ابلیس کا مخلوق ناری وجنی ہونا، ان سب پر مفصل حاشیے سورة البقرۃ وسورۃ الاعراف میں گزر چکے۔
Top