Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 104
اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ ضَلَّ : برباد ہوگئی سَعْيُهُمْ : ان کی کوشش فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَهُمْ : اور وہ يَحْسَبُوْنَ : خیال کرتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ يُحْسِنُوْنَ : اچھے کر رہے ہیں وہ صُنْعًا : کام
یہ لوگ ہیں جن کی (ساری) کوشش دنیا ہی کی زندگی میں (صرف و) غارت ہو کر رہی اور وہ یہی سمجھتے رہے کہ وہ کوئی بڑے اچھے کام کررہے ہیں،155۔
155۔ (جو ان کی مستقل فلاح کے لیے کافی ہوجائیں گے) (آیت) ” الذین ضل سعیھم فی الحیوۃ الدنیا “۔ یعنی ایسے لوگ جن کی ساری جدوجہد، تگ ودو، کاوش و کوشش کا مدعا، اولا بھی اور آخر ا بھی یہی دنیا اور اس کے محظوظات رہتے ہیں ! بینک کے بڑے بڑے کھاتے، اونچے اونچے عہدہ اور خطابات، اونچی اونچی کوٹھیاں، نام ونمود، شہرت و اعزاز ،” علمی ترقیاں “ ، معاشی فلاح یابیان۔۔ رضائے الہی و فلاح آخرت کا خیال بھی کبھی نہیں آتا ! (آیت) ” ضل “۔ کا لفظ بہت قابل غور ہے۔ ایسے لوگوں کی ساری کوششیں بس اسی دنیا کے پیچھے ختم ہوجاتی، غارت جاتی ہیں ! (آیت) ” یحسبون “۔ یعنی محض اپنے پندار باطل اور ہوائے نفس کے موافق، بغیر کسی دلیل شرعی کے، اپنے مسلک اور روش کو بہتر سمجھے بیٹھے ہیں ! پورا رکوع اگر ذرا بھی خیال کرکے پڑھا جائے تو مومن کے دل کو تھرا دینے اور لرزا دینے کے لئے کافی ہے۔ آہ، کہ آج ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جن کی صبح وشام، رات اور دوپہر، سب اسی دنیا کے اڈھیربن میں، رضائے مولی سے بالکل منہ موڑے ہوئے گزررہی ہے، اور اپنے زعم وپندار میں اپنے کو محقق ومصلح، شاعر وادیب، رومانس نگار اور آرٹسٹ، اور خدا معلوم روشن خیالی کے ایجاد کیے ہوئے کیسے کیسے خوشنما القاب سے اپنے کو آراستہ سمجھتے رہتے ہیں، تاآنکہ جب موت آجاتی ہے، اس وقت آنکھیں کھلتی ہیں کہ ارے ہم کس دھوکے میں پڑے رہے، یہاں تو پرسش ان ” علوم و ” فنون “ و ” صناع “ میں سے کسی کی بھی نہیں ! اللھم احفظنا “۔ (آیت) ” الذین ضل سعیھم “۔ متعدد صحابیوں اور تابعین کا خیال ہے کہ الفاظ سے اشارہ خصوصی اہل کتاب کی جانب ہے۔ المراد بھم اھل الکتابین وروی ذلک عن ابن عباس ؓ وسعد ابن ابی وقاص ؓ و مجاھد (روح) اور بعض اقوال میں تصریح اہل صومعہ یعنی مسیحیوں کی آگئی ہے، یقال اصحاب الصوامع (ابن عباس ؓ
Top