Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 71
فَانْطَلَقَا١ٙ حَتّٰۤى اِذَا رَكِبَا فِی السَّفِیْنَةِ خَرَقَهَا١ؕ قَالَ اَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ اَهْلَهَا١ۚ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا اِمْرًا
فَانْطَلَقَا : پھر وہ دونوں چلے حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا : جب رَكِبَا : وہ دونوں سوار ہوئے فِي السَّفِيْنَةِ : کشتی میں خَرَقَهَا : اس نے سوراخ کردیا اس میں قَالَ : اس نے کہا اَخَرَقْتَهَا : تم نے اس میں سوراخ کردیا لِتُغْرِقَ : کہ تم غرق کردو اَهْلَهَا : اس کے سوار لَقَدْ جِئْتَ : البتہ تو لایا (تونے کی) شَيْئًا : ایک بات اِمْرًا : بھاری
پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ جب دونوں کشتی میں سوار ہوئے تو،104۔ (خضر (علیہ السلام) نے) اس میں سوراخ کردیا (موسی (علیہ السلام) نے) کہا کیا آپ نے اس لئے سوراخ کردیا کہ نتیجہ یہ ہو کہ آپ اس پر بیٹھنے والوں کو غرق کردیں یقیناً آپ نے بہت بری بات کرڈالی،105۔
104۔ کوئی ایسا مقام سفر میں آگیا تھا جس کے آگے کشتی کی ضرورت پڑجاتی تھی اور اب سفر بحری شروع ہوا۔ سمندر یا دریا کے کنارے کنارے تو یوں بھی چل رہے تھے۔ 105۔ (جس پر سکوت کرنا میرے حد عہد سے خارج ہے) (آیت) ” امرا “ کہتے ہیں امر منکر ومعیوب کو۔ (آیت) ” لتغرق “ میں ل عاقبت کا ہے۔ یعنی ایسا فعل جس کا نتیجہ بھی مرتب ہو۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت سے دو امر ثابت ہوئے ایک یہ کہ اکابر سے بھی ایسے امور صادر ہوسکتے ہیں جن کا ظاہر خلاف شریعت ہو۔ (گوحقیقت یہ نہ ہو) دوسرے یہ کہ اولیاء میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو باذن حق تکوینیات میں تصرف کرتے رہتے ہیں۔ صوفیہ کی زبان میں انہیں کو قطب التکوین یا صاحب خدمت کہتے ہیں۔
Top