Tafseer-e-Majidi - Maryam : 10
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةً١ؕ قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اجْعَلْ : کردے لِّيْٓ : میرے لیے اٰيَةً : کوئی نشانی قَالَ : فرمایا اٰيَتُكَ : تیری نشانی اَلَّا تُكَلِّمَ : تو نہ بات کرے گا النَّاسَ : لوگ (جمع) ثَلٰثَ : تین لَيَالٍ : رات سَوِيًّا : ٹھیک
(زکریا نے) کہا میرے پروردگار میرے لئے کوئی نشان مقرر کردیجیے،12۔ (اللہ نے) فرمایا تمہارے لئے نشان یہ ہے کہ تم لوگوں سے تین راتیں نہ بول سکوگے درآنحالیکہ تم تندرست ہوگے،13۔
12۔ (جس سے میں سمجھ جاؤں کے اب ظہور وعدہ کا وقت قریب آپہنچا اور میں بالکل مطمئن ہوجاؤں کہ تیرے فرشتہ نے مجھے جو بشارت پہنچائی ہے۔ وہ تیری ہی طرف سے ہے) گویا آپ یہ عرض کررہے ہیں کہ نفس بشارت تو مل چکی لیکن یہ بھی مجھے کسی غیبی اشارہ سے معلوم ہوجاتا تو اچھا تھا کہ اب حمل قرار پاچکا اور بشارت کا تحقق ایک درجہ میں ہوچکا۔ رب اجعل لی علما ودلیلا علی ما بشرتنی بہ ملائکتک من ھذا الغلام عن امرک ورسالتک لیطمئن الی ذلک قلبی (ابن جریر) اے علامۃ تدلنی علی تحقق المسؤل ووقوع الخیر (روح) علامۃ اذا حملت امراتی (ابن عباس ؓ لتستقر نفسی ویطمئن قلبی بما وعدتنی کما قال ابراھیم (علیہ السلام) رب ارنی کیف الخ (ابن کثیر) یہ مفہوم بھی لیاجانا ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کی طرح حضرت زکریا (علیہ السلام) بھی اپنے مزید اطمینان قلب کے لیے کوئی خاص غیبی نشان طلب کررہے ہیں۔ چناچہ ایک قول اسی مضمون کا حضرت ابن عباس ؓ کی جانب منسوب ملتا بھی ہے۔ لیکن محققین متاخرین نے اس روایت کی صحت ہی کو تسلیم نہیں کیا ہے اور صراحت کردی ہے کہ سوال کا تعلق صرف تعیین وقت وزمانہ سے ہے۔ (روح) 13۔ (آیت) ” سویا “۔ کے معنی ہیں سالم، صحیح، غیرناقص کے۔ یعنی آپ جو تین دن ان لوگوں سے گفتگو پر قادر نہ ہوں گے۔ یہ آپ کے حسب درخواست محض علامت غیبی ہوگی۔ ظہور فرزند کی، اور گویا بالواسطہ آپ (علیہ السلام) کی مقبولیت کی شہادت۔ نہ یہ کہ کوئی مرض یا عذاب ہوگا۔ (آیت) ” رجل سوی “۔ کہتے ہیں اس مرد کو جو اپنی خلقت میں ہر عیب، نقص، افراط، تفریط سے پاک ہو۔ رجل سوی استوت اخلاقہ وخلقتہ عن الافراط والتفریط (راغب) اور آیت میں یہی معنی اہل لغت اور ائمہ تفسیر دونوں نے لیے ہیں۔ زجاج نے کہا ہے۔ اے تمنع الکلام وانت سوی لااخرس فتعلم بذلک ان اللہ قدوھب لک الولد (لسان) اور ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ قال اعتقل لسانہ من غیرمرض (ابن جریر) اور دوسرا قول بھی انہی صحابی سے منقول ہے۔ صحیحا بلاخرس ولا مرض (ابن عباس ؓ یقول من غیرخرس (ابن جریر) اور مجاہد تابعی کا قول ہے۔ قال صحیحا لایمنعک من الکلام مرض (ابن جریر) اور ایسے ہی اقوال عکرمہ اور قتادہ اور ابن زید اور وہب بن منبہ اور سدی سے بھی منقول ہیں۔ اور خود مفسر اعظم ابن جریر لکھتے ہیں یقول جل ثناءہ علامتک لذلک ودلیلک علیہ ان لا تکلم الناس ثلاث لیال وانت سوی صحیح لاعلۃ بک من خرس ولا یمنعک من الکلام۔ اور یہی مسلک جمہور کا ہے۔ ھذا ماعلیہ الجمھور (روح) اس لفظ کے اضافہ سے قرآن مجید کا مقصود انجیل کی اس غلط بیانی کا ازالہ ہے کہ (نعوذ باللہ) آپ بطور عتاب عارضی طور پر گونگے کردیئے گئے تھے، ملاحظہ ہو پارہ 3 سورة آل عمران۔ لیکن آیت کی ایک دوسری ترکیب بھی صحیح ہوسکتی ہے۔ اور بعض بزرگ اسی طرف گئے ہیں، یعنی (آیت) ” سویا “۔ کو بجائے ضمیر مخاطب سے متعلق کرنے کے تین راتوں کی صفت قرار دیا جائے اور اس صورت میں (آیت) ” سویا “۔ مرادف ہوگا متتابعات کے۔ یعنی ” تم لوگوں سے بول نہ سکوگے تین راتیں متواتر (یا برابر) ” چناچہ ابن جریر ہی میں ایک قول حضرت ابن عباس ؓ سے اس معنی میں بھی منقول ہے۔
Top