Tafseer-e-Majidi - Maryam : 14
وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا
وَّبَرًّۢا : اور اچھا سلوک کرنیوالا بِوَالِدَيْهِ : اپنے ماں باپ سے وَلَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا وہ جَبَّارًا : گردن کش عَصِيًّا : نافرمان
اور خاص اپنے پاس سے رقت قلب اور پاکیزگی،17۔ اور وہ بڑے پرہیزگار تھے اور نیکی کرنے والے تھے اپنے والدین کے ساتھ اور سرکش ونافرمان نہ تھے،18۔
17۔ ملاحظہ ہوں حواشی سورة آل عمران۔ زیر آیت 38۔ حکم کے معنی نبوت بھی ہوسکتے ہیں اور حکمت، شریعت، عقل وفہم بھی۔ الحکم النبوۃ او حکم الکتاب اوالحکمۃ اواللت وھو العقل (بحر) اعلم ان فی الحکم اقوالا الاول انہ الحکمۃ والثانی انہ عقل والثالث انہ النبوۃ (کبیر) الحکم الفھم والعلم (ابن عباس ؓ الحکمۃ وھو فھم التورۃ والفقہ فی الدین (مدارک) بہرحال حکم کے تحت میں علمی وذہنی کمالات آگئے اور (آیت) ” حنانا وزکوۃ “ کے تحت میں عملی واخلاقی۔ گویا آپ کی ذات جامع تھی علمی وعملی، ذہنی واخلاقی کمالات واوصاف کی۔ (آیت) ” زکوٰۃ “۔ سے مراد اصطلاح فقہ والی زکوٰۃ مال نہیں بلکہ عام حسن عمل و پاکیزگی ہے۔ اے عملا صالحا زکیا (کبیر۔ عن ابن عباس وقتادۃ والضحاک وابن جریر) الحکم۔ فقیہ جلیل ابن العربی مالکی نے لکھا ہے کہ حکم کے یہاں تین معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک وحی، دوسرے نبوت، تیسرے اس کی معرفت اور اس پر عمل اور یہ تینوں معنی درست ہوسکتے ہیں، صغر سنی میں نزول وحی اور مکاشفہ ملائکہ جائز ہیں (احکام القرآن) (آیت) ” واتینہ الحکم صبیئا “۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ یہ اصل اور دلیل ہے اس قول کی جو اکثر لوگوں کی زبان پر جاری رہتا ہے کہ فلاں شخص مادر زاد ولی ہے۔ 18۔ (جیسا کہ ہیرود کے زمانہ میں یہود نے آپ پر تہمت لگائی، اور انہیں باغی و سرکش اور شورش پسند مشہور کرنا چاہا تھا) (آیت) ” تقیا “۔ میں اشارہ اس طرف ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ادا کرنے والے تھے اور (آیت) ” برا بوالدیہ “۔ میں یہ کہ وہ حقوق العباد کے پورے ادا کرنے والے تھے۔ (آیت) ” جبارا “۔ کا تعلق خلق سے ہے۔ یعنی وہ مخلوقات کے ساتھ سختی اور سرکشی سے پیش آنے والے نہ تھے۔ اور (آیت) ” عصیا “ کا تعلق حق تعالیٰ سے ہے۔ یعنی وہ اللہ کے قانون کو توڑنا چاہتے ہی نہ تھے۔
Top