Tafseer-e-Majidi - Maryam : 23
فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ١ۚ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا
فَاَجَآءَهَا : پھر اسے لے آیا الْمَخَاضُ : دردِ زہ اِلٰى : طرف جِذْعِ : جڑ النَّخْلَةِ : کھجور کا درخت قَالَتْ : وہ بولی يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش میں مِتُّ : مرچکی ہوتی قَبْلَ ھٰذَا : اس سے قبل وَكُنْتُ : اور میں ہوجاتی نَسْيًا مَّنْسِيًّا : بھولی بسری
سو انہیں دردزہ ایک کھجور کے درخت کی طرف لے گیا،33۔ (اور) وہ بولیں کاش میں اس سے پہلے مرگئی ہوتی۔ اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی،34۔
33۔ (کہ اسی کے سہارے اٹھیں بیٹھیں) طلبا لسھولۃ الولادۃ للتثبت بھا (کبیر) کھجور شام و فلسطین میں اب بھی پیدا ہوتا ہے لیکن قدیم زمانہ میں تو بڑی کثرت سے ہوتا تھا۔ ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی، بعض نے کہا ہے کہ یہ درخت اسی وقت بطور خارق عادت اگا دیا گیا تھا، لیکن اس قول پر کوئی دلیل نہیں۔ اور غالب احتمال یہی ہے کہ پہلے سے موجود ہوگا۔ والظاھر ان النخلۃ کانت موجودۃ قبل مجیء مریم الیھا (بحر) دوسرے احتمالات بھی ممکن ہیں۔ یحتمل للتقویۃ والا ستناد الیھا (کبیر) ویحتمل للتستربھا (کبیر) 34۔ یعنی کسی کو میری یہ بدنامی یاد بھی نہ رہ گئی ہوتی کہ فلاں بےشوہری عورت کے اولاد ہوئی تھی۔ یہ کلمات آپ کی زبان پر فرط غیرت سے اور بدنامی کے خوف سے بےساختہ آگئے تھے۔ محققین نے یہیں سے یہ نکالا ہے کہ موت کی تمنا کسی دینی محرک وداعیہ کے باعث جائز ہے۔ مفسر تھانوی (رح) نے لکھا ہے کہ یہ تمنائے موت اگر غم دنیا سے تھی، جب تو غلبہ حال کو اس کا عذر قرار دیا جائے گا جس میں انسان من کل الوجوہ مکلف نہیں رہتا اور اگر غم دین سے تھا کہ لوگ بدنام کریں گے اور میں شائد صبر نہ کرسکوں اور بےصبری کی معصیت میں مبتلا ہوجاؤں، موت آجاتی تو اس معصیت سے حفاظت رہتی تو ایسی تمنا ممنوع نہیں ہے۔
Top