Tafseer-e-Majidi - Maryam : 30
قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ
قَالَ : بچہ نے اِنِّىْ : بیشک میں عَبْدُ اللّٰهِ : اللہ کا بندہ اٰتٰىنِيَ : اس نے مجھے دی ہے الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلَنِيْ : اور مجھے بنایا ہے نَبِيًّا : نبی
) وہ بچہ) بول اٹھا میں اللہ کا بندہ ہوں،45۔ اس نے مجھے کتاب دی اور اس نے مجھے نبی بنایا،46۔
45۔ (اور بندہ بھی خاص ومقرب) اس ذرا سے فقرہ میں تردید آگئی آپ (علیہ السلام) کے متعلق ہر قسم کے غلو کی ....... ایک طرف انصاری کی افراط کی بھی اور دوسری طرف یہود کی تفریط کی بھی۔ اور آپ کی صحیح و حقیقی حیثیت واضح و متعین ہوگئی۔ (آیت) ” قال “۔ یہود کی مخاطبت کا انتظار کئے بغیر آپ (علیہ السلام) باذن الہی خود ہی بول اٹھے۔ اس خرق عادت کا ظہور، خود یہود کے مسلمات کے لحاظ سے، آپ کی اعلی مقبولیت کا ثبوت تھا۔ اور فساد نسب اس مقبولیت عظمی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اس سن میں آپ کا تکلم یہود کی بدگمانی رفع کے لئے بجائے خود کافی ہوجانا چاہیے تھا۔ امام رازی (رح) نے اس پہلو کی جانب اشارہ کیا ہے۔ 46۔ مستقبل کے واقعات کو، جب کہ ان کا وقوع بالکل یقینی اور غیر مشتبہ ہو، بہ صیغہ ماضی بیان کرنا عادت قرآنی کے عین مطابق ہے۔ المراد بان حکم وقضی بانہ یبعثنی من بعد (کبیر عن ابن عباس ؓ بعض اقوال یہ بھی نقل ہوئے ہیں کہ حضرت کا یہ قول اس وقت کا نہیں، بہت بعد کا ہے۔ پہلا قول (آیت) ’ عبداللہ “۔ پر ختم ہوگیا۔
Top