Tafseer-e-Majidi - Maryam : 32
وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ١٘ وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا
وَّبَرًّۢا : اور اچھا سلوک کرنیوالا بِوَالِدَتِيْ : اپنی ماں سے وَ : اور لَمْ يَجْعَلْنِيْ : اس نے مجھے نہیں بنایا جَبَّارًا : سرکش شَقِيًّا : بدنصیب
اور مجھے میری والدہ نے نیکی کرنے والا (بنایا) ،49۔ اور مجھے سرکش وبدبخت نہیں بنایا،50۔
49۔ اس میں تردید ہے انجیل مروجہ کی پیدا کی ہوئی اس غلط فہمی کی کہ آپ کا برتاؤ اپنی والدہ کے ساتھ اچھا نہ تھا۔ اور آپ ان سے بےرخی، بےالتفاتی، بےاعتنائی برت جاتے۔ (ملاحظہ ہو متی 12: 46۔ 50) مرقس 3: 31۔ 35 لوقا 8: 19۔ 21) اس حسن سلوک کے موقع پر بجائے والدین کے صرف والدہ کا نام لانا خود اس امر کا قرینہ ہے کہ آپ کی پیدائش والد کے توسط کے بغیر ہوئی تھی۔ 50۔ (کہ میں خلق یا خالق کسی کے بھی ادائے حقوق میں کمی کروں یا اعمال کے ترک سے بدبختی خریدوں) انجیل میں آپ کی زبان سے ہے :۔ ” میں حلیم ہوں اور دل کا فرد تن “ (متی 11: 29) نیز ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ فقہاء نے آیت سے یہ نکالا ہے کہ انسان کا اپنی زبان سے اپنے اوصاف کمالی کا ظاہر کرنا بالکل جائز ہے، بشرطیکہ مقصود تعارف ہو، ناز وافتخار نہ ہو، یدل علی انہ یجوز للانسان ان یصف نفسہ بصفات الحمد والخیر اذا ارادتعریفھا الی غیرہ لاعلی جھۃ الافتخار (جصاص)
Top