Tafseer-e-Majidi - Maryam : 42
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْئًا
اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو يٰٓاَبَتِ : اے میرے ابا لِمَ تَعْبُدُ : تم کیوں پرستش کرتے ہو مَا لَا يَسْمَعُ : جو نہ سنے وَلَا يُبْصِرُ : اور نہ دیکھے وَلَا يُغْنِيْ : اور نہ کام آئے عَنْكَ : تمہارے شَيْئًا : کچھ
وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ اے میرے باپ آپ کیوں ایسی چیز کی پرستش کرتے ہیں جو نہ سنے نہ دیکھے اور نہ آپ کے کچھ بھی کام آسکے،63۔
63۔ (عقل سے سوچئے تو بت پرستی کی لاحاصلی آپ پر بالکل روشن ہوجائے) (آیت) ” لم تعبد “۔ الخ۔ ظاہر ہے کہ مراد بتوں اور مورتیوں کی پرستش سے ہے۔ عراق قدیم یا کلدانیہ کا شرک، بدترین قسم کا شرک تھا۔ دیوی دیوتاؤں کے نام 5 ہزار کی تعداد میں اب تک کتبوں میں مل چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن کا حاشیہ۔ (آیت) ” مالایسمع ...... شیئا “۔ مطلب یہ کہ جو ہستی واجب الوجود نہیں، وہ لائق عبادت تو کسی حال میں بھی نہیں، چہ جائیکہ ایسی ہستیاں جو سماعت، بصارت وغیرہ سے بھی عاری ہوں ! مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے طریق دعوت وتبلیغ میں حسن خلق وادب کو ملحوظ رکھا تاکہ مخاطب فساد ومکابرہ پر آمادہ نہ ہوجائے۔
Top