Tafseer-e-Majidi - Maryam : 65
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَ اصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ١ؕ هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِیًّا۠   ۧ
رَبُّ السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کا رب وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان فَاعْبُدْهُ : پس اس کی عبادت کرو وَاصْطَبِرْ : اور ثابت قدم رہو لِعِبَادَتِهٖ : اس کی عبادت پر هَلْ : کیا تَعْلَمُ : تو جانتا ہے لَهٗ : اس کا سَمِيًّا : ہم نام کوئی
وہ پروردگار آسمانوں کا اور زمین کا ہے اور اس سب کا جو دونوں کے درمیان ہے سو تو اس کی عبادت کیا کر اور اس کی عبادت پر قائم رہ،97۔ بھلا تو کسی کو اس کا ہم صفت جانتا ہے ؟ ،98۔
97۔ (اگر چہ اس راہ میں مشکلات بھی پیش آئیں) یہاں خطاب عام ہے۔ محض رسول اللہ ﷺ مخاطب نہیں۔ بعض نے خطاب کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مخصوص سمجھا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ آپ تاخیر وحی سے گھبرائیے نہیں اور کافروں کے تمسخر کی کچھ پروانہ کیجئے۔ بلکہ بدستور عبادت میں لگے رہئے۔ اے لاتتشوش بابطاء الوحی وھزأ الکفرۃ (بیضاوی) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں مجاہدات طریق کی طرف اشارہ ہے اور ان پر صبر وثبات کی تعلیم ہے۔ 98۔ یعنی ذات کی طرف صفات باری میں بھی کوئی شریک نہیں۔ (آیت) ” سمیا “۔ سمی کے معنی محض ہم نام کے نہیں۔ ہم صفات کے بھی ہیں اور وہی یہاں مراد ہیں۔ اے نظیرا لہ یستحق اسمہ وموصوفا یستحق صفتہ علی التحقیق (راغب) اے ھل تعلم للرب مثلا اوشبھا (ابن جریر۔ عن ابن عباس ؓ قال مجاھد وابن جبیر وقتادۃ سمیا مثلا وشبھا وروی ذلک عن ابن عباس ایضا (بحر)
Top