Tafseer-e-Majidi - Maryam : 96
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک سَيَجْعَلُ : پیدا کردے گا لَهُمُ : ان کے لیے الرَّحْمٰنُ : رحمن وُدًّا : محبت
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام بھی کئے خدائے رحمن ان کے لئے محبت پیدا کردے گا،129۔
129۔ (خلائق کے قلوب میں بلااسباب ظاہری کے) مشاہدہ ہے کہ بےغرض، متدین، مخلص، خادم خلق و عبادت گذار سے لوگوں کو محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ متقیوں کے علاوہ دوسروی کو جہاں کہیں محبوبیت حاصل ہوتی ہے، وہاں کوئی نہ کوئی قریبی سبب ظاہری موجود ہوتا ہے۔ مثلا عزیز داری، ذاتی دوستی، ہم وطنی، ہمسائگی وغیرہا۔ یحبھم ویحببھم الی المومنین (ابن عباس ؓ سیحدث لھم فی القلوب مودۃ (کشاف) ” یہ تفسیر حدیث میں آئی ہے اور اس کا نعمت ہونا بلکہ اعظم نعمت ہونا ظاہر ہے۔ کیونکہ مغز نعمت کا راحت اور امن ہے۔ اور ظاہر ہے کہ محبوبیت اس کے اعظم اسباب سے ہے۔ اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے کسی کو بغض نہ ہوگا۔ بلکہ مقصود قرآن و حدیث کا یہ ہے کہ عام خلائق جن کا نہ کوئی نفع اس مومن سے وابستہ ہے نہ کوئی ضرر، وہ اس سے محبت کرتے ہیں چناچہ مشاہدہ ہے۔ اور اہل انتفاع کا محبت کرنا جیسا کہ نفع رساں کفار سے بھی لوگوں کو محبت ہوتی ہے یا اہل تضرر کا بغض کرنا جیسا کہ ظالموں کو مسلمانوں سے ہوتا ہے قابل اعتبار نہیں، کیونکہ درحقیقت وہ محبت اور بغض اپنے نفع اور ضرر سے ہے۔ اگر دونوں سے قطع نظر کی جائے اس وقت مومن کی صفات میں یہ اثر ہے کہ اس سے عام قلوب کا استجلاب ہوتا ہے۔ “ (تھانوی (رح) ایک معنی یہ بھی منقول ہیں کہ (آیت) ” ودا “۔ بہ معنی محبوب ہے، یعنی اللہ ایسے لوگوں کے لئے وہ چیز مہیا کردیتا ہے جسے وہ محبوب رکھتے ہیں۔ اے یھب لھم مایحبون (کبیر۔ عن ابی مسلم) ایک معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ خدائے رحمن ان کے دلوں میں اپنی محبت یعنی طاعت میں لذت وحلاوت ڈال دیتا ہے۔ اے سیجعل لھم لذۃ وحلاوۃ فی الطاعۃ (روح) مرشد تھانوی (رح) نے ارشاد فرمایا کہ قلوب خلائق سے مراد وہ قلوب ہیں جن میں حق تعالیٰ کی محبت موجود ہو، ورنہ جو دل محبت الہی سے خالی ہوتے ہیں، ان میں تو مومنین وصالحیں کے خلاف بغض ہی بھرا ہوتا ہے۔
Top