Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 106
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَا١ؕ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
مَا نَنْسَخْ : جو ہم منسوخ کرتے ہیں مِنْ آيَةٍ : کوئی آیت اَوْ نُنْسِهَا : یا اسے بھلا دیتے ہیں نَأْتِ : لے آتے ہیں بِخَيْرٍ : بہتر مِنْهَا : اس سے اَوْ مِثْلِهَا : یا اس جیسا اَلَمْ : کیا نہیں تَعْلَمْ : جانتے تم اَنَّ اللہ : کہ اللہ عَلٰى : پر كُلِّ شَیْءٍ : ہر شے قَدِیْرٌ : قادر
ہم جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں۔379 ۔ تو (کوئی) اس سے بہتر ہی،380 ۔ یا مثل اس کے لے آتے ہیں کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے،381 ۔
379 ۔ (لوگوں کے دماغ یا حافظہ سے) انساء ھا اے حذف ذکرھا عن القلوب (راغب) انساء ایۃ اے اذھابھا عن القلوب (بیضاوی) ایۃ کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس کا اطلاق آیت مکتوبی پر بھی ہوتا ہے اور نشان، دلیل، معجزہ پر بھی، یہاں مراد اگر دلائل ومعجزات سے لی جائے جب تو آگے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک کے بجائے دوسرا نشان حقانیت قرآن کا وجود میں اب بھی آتا ہی رہتا ہے۔ اور زمانہ نزول قرآن میں تو خارق عادت نشانوں کی بھی کمی نہ تھی، البتہ اگر آیت مکتوبی ہی مراد لی جائے جب بھی دو شقیں ممکن ہیں۔ آیتیں یا قرآن مجید کی ہوں یا کتب سابق کی، اگر کتب سابق کی آیتیں مراد ہیں جیسا کہ ابو مسلم اصفہانی کا مذہب ہے جب بھی بحث آگے نہیں بڑھتی۔ پرانی کتابوں کی آیتوں کا قرآنی آیتوں سے منسوخ ہونا تو ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے جس میں نہ کوئی اختلاف ہے نہ نزاع، اب اگر آیات قرآنی ہی مراد ہوں جیسا کہ جمہور مفسرین کا خیال ہے تو سوال یہ رہ جاتا ہے کہ نسخ سے مفہوم کیا ہے ؟ نسخ سے مراد کسی نے آج تک یہ تو لی نہیں کہ فلاں عقیدہ کسی زمانہ میں واجب تھا اب وہ منافی ایمان قرار پایا۔ یاجھوٹ، چوری، زنا، قتل پہلے حرام تھے پھر حلال قرار پاگئے یا فلاں حکایت پہلے جس طرح قرآن میں بیان ہوئی تھی بعد کو اس کی تردید ہوگئی۔ غرض نسخ کی گنجائش کا عقائد میں، کلیات اخلاق میں، امور حسی میں، قصص گزشتہ اور حکایات ماضی میں، اخبار غیب میں یعنی قرآن مجید کے پیشتر حصہ میں تو کوئی بھی قائل نہیں۔ نسخ کی گنجائش جو کچھ بھی ہے لے دے کے باب احکام میں ہے اور احکام کی مثال طیبب کے نسخے کی ہے۔ طیب کی تشخیص اپنی جگہ پر بدستور رہتی ہے لیکن مریض کی حالت بدلتی رہتی ہے۔ اور پھر موسم اور آب وہوا میں بھی فرق ہوتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں کوئی حاذق سے حاذق طبیب بھی اپنے نسخہ کے اجزاء میں ان بدلے ہوئے حالات کے مطابق ترمیم کرنے میں تامل نہ کرے گا۔ قرآن کے بعض احکام قانون کے نسخ کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ خود قانون ساز و قانون آفریں کے قلم سے عین وضع قانون کے دوران میں بعض قانون جو عارضی وہنگامی حیثیت رکھتے ہیں بدل دیئے گئے اور ان کی جگہ مستقل ودوامی قوانین نے لے لی انسان کے دانت اور جبڑے مستقل طور پر غذاؤں کے چبانے، پیسنے، چرنے، کاٹنے اور پھاڑنے ہی کے کام کے لیے ہیں، لیکن ابتداء ئی شیرخوارگی میں دانت نکلنے سے قبل دوسری قسم کی شربی یا نیم شربی غذائیں اس کے لیے موزوں ہیں، اس موٹی اور سیدھی سی بات میں خدا معلوم اتنا گھبرانے کا کونسا پہلو ہے جو آج بعض مفسرین جدید خود مسئلہ نسخ ہی سے انکار پر تل گئے ہیں۔ یہ بھی خوب واضح رہے کہ یہ نسخ جو کچھ بھی ہوگا محض علم بشری ناقص و محدود کے اعتبار سے ہوگا۔ ورنہ علم الہی میں تو ہر حکم ازل سے وقت معین کے لیے مقرر وثابت ہی ہے۔ جمہور کا مذہب اسی وقوع نسخ کا ہے۔ گو ایک گروہ عدم نسخ کا بھی قائل رہا ہے۔ ویروی عن بعض المسلمین انکار النسخ واحتج الجمھور من المسلمین علی جواز النسخ ووقوعہ (کبیر) اور فیقہ جصاص نے ایک غیر فقیہ کا قول بھی اس معنی میں نقل کیا ہے کہ شریعت محمدی کے اندر کوئی نسخ نہیں، ناسخ خود یہ شریعت ساری سابق شریعتوں کی ہے۔ زعم بعض المتأخرین من غیر اھل الفقۃ انہ لا نسخ فی شریعۃ نبینا محمد ﷺ وان جمیع ما ذکر فیھا من النسخ فانما المراد بہ نسخ شرائع الانبیاء المتقدمین (احکام القرآن) اور نسخ کے معنی شریعت میں ازالہ یا تبدیلی کے ہیں بھی نہیں، اصلی مغالطہ یہیں سے شروع ہوتا ہے کہ نسخ کو اردو کی منسوخی کے مرادف سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ اصطلاح شریعت میں نسخ کے معنی کسی مطلق وغیر مقید حکم کو صرف محدود ومقید کردینے کے ہیں۔ و تفسیر النسخ لغۃ التبدیل وشریعۃ بیان انتھاء الحکم الشرعی المطلق الذی تقرر فی اوھامنا استمرارہ بطریق التراخی فکان تبدیلا فی حقنا بیانا محضا فی حق صاحب الشرع (مدارک) 380 ۔ (یعنی وقت وموسم، بدلے ہوئے حالات کے زیادہ مطابق) اے بما ھو انفع لکم واسھل علیکم (معالم) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ جو حال یا وارد، بلااختیار عبد زائل یا مغلوب ہوجائے حق تعالیٰ اس سے بہتر یا اس کے مثل ہی دوسرا عطا کردیتا ہے۔ سو اس پر افسوس و حسرت نہ کرنا چاہیے۔ 381 ۔ (سو ایسے قادر مطلق کے لیے کیا مشکل ہے کہ احوال ومصالح کی رعایت برابر کرتا رہے) خطاب یہاں معترض، معاند منکر نسخ سے ہے، قیل المنکر النسخ (روح) اور بعض نے مطلق سامع کو مخاطب قرار دیا ہے۔ والاولی ان یکون المخاطب السامع (بحر)
Top