Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 112
بَلٰى١ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١۪ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۠   ۧ
بَلٰى : کیوں نہیں مَنْ : جس اَسْلَمَ : جھکادیا وَجْهَهٗ : اپنا چہرہ لِلّٰہِ : اللہ کے لئے وَهُوْ : اور وہ مُحْسِنٌ : نیکوکار فَلَهٗٓ : تو اس کے لئے اَجْرُهُ ۔ عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کا اجر۔ اپنے رب کے پاس وَلَا : اور نہ خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہاں البتہ،399 ۔ جو کوئی بھی اپنی ذات کو اللہ کے آگے جھکائے اور وہ مخلص بھی ہو،400 ۔ تو ایسے کے لیے اس کے پروردگار کے پاس اس کا اجر ہے اور ایسوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ مغموم ہوں گے،401 ۔
399 ۔ یعنی نجات کا صحیح قانون یہ ہے جواب بیان ہورہا ہے، بکی۔ اپنے سبق کی نفی وتردید کے لئے ہے۔ یعنی تمہارا دعوی غلط محض ہے۔ صحیح قاعدہ یہ ہے جو آگے آرہا ہے۔ 400 ۔ (اپنے اس ایمان و اعتقاد میں) یعنی اس کا عمل بھی اس کے عقیدہ توحید کے مطابق ہو۔ گویا ایمان وحسن عمل دونوں جمع ہوں۔ وجہ کے لفظی معنی چہرہ کے ہیں۔ لیکن محاورہ میں اکثر مراد ذات سے یا عین شے سے ہوتی ہے اور وہی یہاں مراد ہے۔ ربما عبر عن الذات بالوجہ (راغب) فالوجہ اما مستعار للذات واما مجاز عن القصد (روح) اسلم وجھہ للہ یعنی توحید کا پوری طرح قائل ہوجائے بلاآمیزش شرک۔ اے اخلص نفسہ لہ لا یشرک بہ غیرہ (کشاف) لم یقصد سواہ (روح) 401 ۔ خوف واندیشہ کا تعلق مستقبل سے ہے اور حزن وغم ماضی کے واقعات پر ہوتا ہے۔ ذکر قیامت کا ہے کہ اس روز اہل ایمان نہ اپنے ماضی پر حسرت وتاسف کریں گے نہ آئندہ کے لیے دہشت زدہ ہوں گے۔
Top