Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 120
وَ لَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْیَهُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ١ؕ قُلْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰى١ؕ وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ١ۙ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍؔ
وَلَنْ تَرْضٰى : اور ہرگز راضی نہ ہوں گے عَنْکَ : آپ سے الْيَهُوْدُ : یہودی وَلَا : اور نہ النَّصَارٰى : نصاری حَتّٰى : جب تک تَتَّبِعَ : آپ پیروی نہ کریں مِلَّتَهُمْ : ان کا دین قُلْ : کہ دیں اِنَّ : بیشک هُدَى اللہِ : اللہ کی ہدایت هُوَ الْهُدٰى : وہی ہدایت وَلَئِنِ : اور اگر اتَّبَعْتَ : آپ نے پیروی کی اَهْوَآءَهُمْ : ان کی خواہشات بَعْدَ ۔ الَّذِي : بعد۔ وہ جو کے (جبکہ) جَآءَکَ : آگیا آپ کے پاس مِنَ : سے الْعِلْمِ : علم مَا لَکَ : نہیں آپ کیلئے مِنَ : سے اللہِ : اللہ مِنْ وَلِيٍّ : کوئی حمایت کرنے والا وَلَا نَصِيرٍ : اور نہ مددگار
اور آپ سے یہود ونصاری ہرگز خوش نہ ہوں گے،432 جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ ہوجائیں ف، 433 ۔ آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کی (بتلائی ہوئی) تو راہ بس وہی ہے،434 ۔ اور اگر آپ بعد اس علم کے جو آپ کو پہنچ چکا ہے ان کی خواہشوں کی پیروی کرنے لگے،435 ۔ تو آپ کے لیے اللہ (کی گرفت) کے مقابلہ میں نہ کوئی یار ہوگا نہ مددگار،436 ۔
432 ۔ (خواہ آپ ان کی کتنی ہی رعایت ملحوظ رکھیں اور ان کے ساتھ برتاؤ کتنی ہی غمخواری اور دلسوزی کا رکھیں) یہ حکم۔ نصرانیوں سے متعلق ہے جو بہرحال اہل کتاب تھے اور مسلمانوں کے ساتھ مشترک ایمان سلسلہ وحی ونبوت پر رکھتے تھے، تو جو کھلے ہوئے اہل شرک ہیں، اور اسلامی عقائد سے اشتراک کسی درجہ کا بھی نہیں رکھتے، ان کی رضا جوئی اور ان سے توقع صلح رکھنے کا جو حکم ہوگا ظاہرہی ہے۔ 433 ۔ (یعنی اس مذہب کے جو انہوں نے گڑھ رکھا ہے۔ اور اپنے دین حق سے دستبردارنہ ہوجائیں) ملۃ کے معنی مذہب اور طریقہ کے ہیں۔ الملۃ الشریعۃ اوالدین (قاموس) قال ابو اسحاق الملۃ السنۃ والطریقۃ (تاج) دین اور ملت میں فرق یہ ہے کہ دین کا استعمال اللہ اور افراد امت کے سلسلہ میں ہوتا ہے۔ مثلا دین اللہ یا دین زید اور ملۃ کا استعمال نبی اور جماعت کے سیاق میں ہوتا ہے۔ مثلا ملت ابراہیم (علیہ السلام) یا ملت یہود (راغب) لفظ ملۃ کے صیغہ واحد سے فقہاء نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کفر جس قسم کا بھی ہو بہرحال ایک ہی ملت کے حکم میں ہے۔ وقد استدل کثیر من الفقھاء علی ان الکفر کلہ ملۃ واحدۃ (ابن کثیر) اور اسی اصل کی بنا پر وراثت کافروں اور مسلموں کے درمیان جائز نہیں رکھی ہے۔ لیکن کافروں کافروں کے درمیان جائز رکھی ہے۔ خواہ ان کا کفر آپس میں مختلف ہی ہو۔ وھذا مذھب الشافعی وابی حنیفۃ واحمد فی روایۃ عنہ (ابن کثیر) 434 ۔ (حق وصواب کی) اسی پر عقل ونقل کے دلائل کا اتفاق ہے اور اسی اللہ کی بتلائی ہوئی راہ کا نام طریق اسلام ہے ، 435 ۔ (مسائل دین میں۔ اور یہ پیروی ان کے لیے محال ہے) لئن میں لام قسم کا ہے تاکید وقطعیت کے لیے ہے۔ لام قسم (جلالین) قرآن ہے خدا کا کلام لیکن ہے بہرحال محاورۂ انسانی ہی میں، انسانی کلام میں جہاں جہاں قسم کا موقع آتا ہے قرآن میں بھی اس کی رعایت کی جائے گی۔ اھواء سے مراد وہ رائیں اور خیالات ہیں جو علم و حقیقت کے بجائے نفسانی خواہشوں پر مبنی ہوں۔ اے آراء ھم الزائغۃ (بیضاوی) والھوی رأی یتبع الشھوۃ (بیضاوی) (آیت) ” العلم “ سے مراد علم وحی ہے۔ ہر طرح پر قطعی ویقینی اور ہر اشتباہ سے بالاتر۔ العلم الوحی (بضاوی) اے من بعد الذی اقتصصت علیک من نبءھم (ابن جریر) گویا ایک سرے پر العلم ہے، حقیقت سے تمامتر لبریز۔ اور دوسرے سرے پر اھواء حقیقت سے تمامتر خالی۔ استدلال قرآنی کی منطقی شکل گویا اب یہ ہوئی :۔ 1 ۔ یہود ونصاری کی رضا طلبی کے لیے لازمی ہے کہ آپ ان کا دین اختیار کریں، لیکن ان کا دین سرتارسر محرف و باطل ہے۔ اس لیے ان کی رضا طلبی کے لیے لازم ہوا کہ آپ دین محرف و باطل اختیار کریں۔ 2 ۔ جو رحمت خداوندی سے مالامال اور توفیق الہی سے سرفراز ہو اس کے لیے باطل کی پیروی محال ہے۔ آپ رحمت خداوندی سے مالا مال اور توفیق الہی سے سرفراز ہیں۔ اس لیے آپ کے لیے پیروی باطل محال ہے۔ 3 ۔ اور جب آپ کے لیے پیروی باطل محال ہے۔ تو ملت یہود ونصاری کی پیروی جو خود ایک شکل زیغ و باطل ہی کی ہے، اس کی پیروی بھی محال ہے۔ اور اس لیے ان باطل پرستوں کی حصول رضا کی بھی کوئی شکل آپ کے لیے نہیں۔ آگے جو وعید اتباع باطل پر آئی ہے اور اس کے ساتھ قید (آیت) ” بعد الذی جاءک من العلم “ کی لگی ہوئی ہے۔ اس قید سے امام رازیرحمۃ اللہ علیہ نے استنباط کیا ہے کہ وعید ہمیشہ دلائل صریح کے بعد ہی ہوگی۔ یدل علی انہ لایجوز الوعید الابعد نصب الادلۃ (کبیر) ۔ 436 ۔ (آیت) ” ولی (یار) اس دنیا میں اور (آیت) ” نصیر “ (مددگار) عالم آخرت میں۔ خوب خیال رہے کہ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرکے یہ بات محض بطور فرض کے کہی گئی ہے۔ اور فرض جب محالات عقلی تک کیے جاسکتے ہیں تو محالات عادی یا منفیات شرعی کے فرض کرلینے میں تو اور بھی کوئی اشکال نہیں۔ اور اس طرز مخاطبت سے مقصود بھی غالبا مسئلہ کی اہمیت پرزور دینا ہ۔ منکروں کی طرف میلان پر اتنا تشدد جب خود رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہے تو دوسروں کا کیا ذکر ہے۔ فیہ تھدیدو وعید شدید للامۃ عن اتباع طرائق الیھود والنصاری (ابن کثیر) اور بعض نے کہا ہے کہ یہاں خطاب رسول اللہ ﷺ سے صرف لفظ ہے ورنہ مراد امت ہی ہے اور اصل حکم اسی کو ہے۔ الخطاب مع الرسول والامر لامتہ (ابن کثیر) قیل الخظاب مع النبی والمراد بہ الامۃ (معالم) قیل المقصود منہ امتہ ، (روح)
Top