Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 122
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِي اِسْرَائِيلَ : اے بنی اسرائیل اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِي : جو کہ اَنْعَمْتُ : میں نے انعام کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّي : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی عَلَى : پر الْعَالَمِينَ : زمانہ والے
اے بنی اسرائیل میری وہ نعمتیں یاد کرو جو میں نے تم کو بخشیں،440 ۔ اور یہ کہ میں نے تمہیں دنیا جہاں والوں پر فضیلت دی،441 ۔
440 ۔ قوم بنی اسرائیل اور ان پر جو احسانات خداوندی تھے ان کا تعارف رکوع 5 میں مفصل کرایا جاچکا ہے۔ وہیں کے حاشیے ملاحظہ فرما لیے جائیں شروع میں تاریخ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ سے بیان ہوئی۔ یعنی اس کے اس عہد کی جب وہ مستقل صاحب کتاب و شریعت ہو کر آزاد وخود مختار رہے اور ہر طرح کی نافرمانی وسرکشی میں بھی مبتلا۔ اب اسے اس کے قدیم ترین دور یعنی ابراہیمی کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے بعد سے تو آپ کی نسل کی دو شاخیں ہوئیں اور ایک کا نام دو پشتوں کے بعد بنی اسرائیل پڑا۔ 441 ۔ (توحید کی علمبردار اور مبلغ کی حیثیت سے) قرآن مجید جو دعوی کرتا ہے کہ کسی کی پروا کیے بغیر، بےتکان اور بےدھڑک کرتا ہے۔ بنی اسرائیل کو اس نے مطلق صورت میں بلاکسی قید وشرط کے، اس وقت تک کی تمام قوموں کے مقابلہ میں افضل قرار دیا ہے۔ یہ افضلیت اسی نعمت توحید کی بنا پر تھی، دنیا کی دنیا شرک کی لعنت میں مبتلا تھی۔ توحید پر قائم صرف یہی قوم تھی۔ اور سلسلہ نبوت کی قائل صرف یہی نسل تھی۔ تفصیل کے لیے رکوع 6 کے حاشیے ملاحظہ فرمائے جائیں۔ بنی اسرائیل کو ان کے عروج اور ان کی گمراہیوں کی سرگزشت سنا کریاد یہ دلایا جارہا ہے کہ ان کی افضلیت واشرافیت کا راز تھا کیا ؟ یہی تھا کہ وہ موحد اعظم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں تھے۔ اور توحید ونبوت کی امانت انہیں کی نسل کے سپرد کی گئی تھی۔ انہیں اگر پھر استفادہ انہیں انعامات سے منظور ہے تو چاہیے کہ اسی دین ابراہیمی کی طرف رجوع کریں۔
Top