Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 127
وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُ١ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَ : اور اِذْ : جب يَرْفَعُ : اٹھاتے تھے اِبْرَاهِيمُ : ابراہیم الْقَوَاعِدَ : بنیادیں مِنَ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کی وَ : اور اِسْمَاعِيلُ : اسماعیل رَبَّنَا : ہمارے رب تَقَبَّلْ : قبول فرما مِنَّا : ہم سے اِنَکَ : بیشک اَنْتَ : تو السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
اور (وہ وقت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے) جب ابراہیم (علیہ السلام) اور اسمعیل (علیہ السلام) خانہ (کعبہ) کی بنیادیں بلند کررہے تھے،458 ۔ اے ہمارے پروردگار ہم سے (یہ) قبول کر،459 ۔ یقیناً تو ہی (سب کچھ) سننے والا ہے (سب کچھ) جاننے والا ہے،460 ۔
458 ۔ (آیت) ” البیت سے مراد خانہ کعبہ ہے اور اس میں کوئی اختلاف رائے نہیں (آیت) ” الکتب “ جس طرح قرآن کریم ہے النبی جس طرح محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ، (آیت) ” البیت “ اسی طرح کعبۃ اللہ ہے۔ (آیت) ” یرفع “ کا لفظ قابل غور ہے۔ بنیادیں اول بار رکھی نہیں جارہی تھیں وہ تو حضرت آدم (علیہ السلام) اپنے عہد ہی میں رکھ گئے تھے، عمارت کے منہدم ہوجانے کے بعد اب انہیں از سر اٹھایا جارہا تھا، بلند کیا جارہا تھا، مسیحیوں کو خانہ کعبہ سے جو ضد اور اس کی قدامت سے جو کد ہے بالکل ظاہر ہے۔ ہر امکانی کوشش اپنے قلم سے اس کی مخالفت میں کرچکے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے باوجود حقیقت ہی ہے۔ آفتاب کے وجود سے روز روشن میں انکار کہاں تک کیا جاسکتا ہے۔ ؟ مترجم قرآن جارج سیل (Sale) اپنے انگریزی ترجمہ قرآن کے مقدمہ میں لکھتا ہے :۔ ” مکہ جسے بکہ بھی کہا گیا ہے۔ اور یہ دونوں الفاظ مترادف ہیں اور ان کے معنی مقام اجتماع عظیم کے ہیں۔ یقیناً دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ہے۔ اور بعض کی رائے میں توریت کے (شہر) میسا سے یہی مراد ہے “۔ اور پھر وہی آگے کہتا ہے :۔ ” مکہ کا معبد اہل عرب کے درمیان مقدس اور ایک عبادت گاہ کی حیثیت سے بہت ہی قدیم زمانہ سے اور محمد ﷺ سے بہت سی صدیوں قبل سے چلا آتا تھا “۔ باسورتھ اسمتھ جو لیکچرز آن محمد اینڈ محمدن ازم کے مصنف ہیں وہ لکھتے ہیں :۔ ’ بناء کعبہ کا سلسلہ حسب روایات “ اسمعیل اور ابراہیم تک پہنچتا ہے، بلکہ شیث وآدم تک، اور اس کا نام بیت ایل خود اس پر دلالت کرتا ہے کہ اسے ابتدائی شکل میں کسی ایسے ہی بزرگ قبیلہ نے تعمیر کیا ہے “۔ (صفحہ 166) سب سے بڑھ کر قابل لحاظ شہادت سرولیم میور کے قلم سے ہے :۔ مکہ کے مذہب کی تاریخ بہت ہی قدیم ماننی پڑتی ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کعبہ ایک نامعلوم زمانہ سے ملک عرب کا مرکز چلا آتا ہے۔ جس مقام کا تقدس اتنے وسیع رقبہ میں مسلم ہو اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس کی بنیاد قدیم ترین زمانہ سے چلی آتی ہے “ (لائف آف محمد ﷺ ۔ مقدمہ صفحہ 102 وصفحہ 103) ۔ یہ شہادتیں مخالفوں کی تھیں۔ باقی ہمارے ہاں کی روایتوں میں خانہ کعبہ کی قدامت کی جو روایتیں ہیں ان سے تو تفسیر، حدیث، سیر کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ (آیت) ” اسمعیل “۔ اسمعیل (علیہ السلام) کی عمر اور زمانہ وغیرہ پر حاشیہ اوپر گزر چکا ہے۔ ایک پیغمبر برحق کی حیثیت سے اسلام میں آپ کا جو مرتبہ ہے، ظاہر ہے۔ لیکن آپ کا ایک مستقل معجزہ یہ ہے کہ جن قوموں نے آپ کی اور آپ کی والدہ ماجدہ کی ہجو اور بدگوئی کو اپنا شعار بنالیا ہے ان تک کے نوشتوں میں آپ کی تعظیم منقول چلی آتی ہے۔ چناچہ بعض احبار یہود کا یہ قول آج تک یہود ہی کی دائرۃ المعارف میں لکھا چلا آتا ہے کہ ” جو کوئی خواب میں اسمعیل کو دیکھ لے حق تعالیٰ کے ہاں اس کی دعا قبول ہوجائے گی “۔ (جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد 6 صفحہ 468) آپ کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ شاہ مصر کی صاحبزادی تھیں۔ اور مصر کا شاہی خاندان حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان کی ایک شاخ تھا۔ عراق سے منتقل ہو کر مصر میں آباد ہوگیا تھا۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے سفر میں ادھر سے گزرے تو بحیثیت ایک شیخ قبیلہ کے، آپ کو شاہ مصر نے اپنا مہمان بنایا۔ اور رخصت کے وقت آپ کے عزازواکرام میں اپنی صاحبزادی کو بطور تحفہ کے پیش کیا۔ اور تواضع و انکسار کی راہ سے کہ مشرقی میزبانی کا خاصہ ہے، کہا کہ یہ آپ کی کنیزی کے لیے ہدیہ ہے۔ اردو زبان میں یہ محاورہ آج تک چلا ہوا ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر بڑے سے بڑا معزز شخص بھی اپنی لڑکی کو کنیز ہی کہہ کر داماد اور سمدھی کے سامنے پیش کرتا ہے۔ مشرقی تواضع کے اس عام پیرایہ بیان سے معانداین کو گویا ایک بڑی معتمد اور مستند دستاویز ہاتھ آگئی۔ اور ام اسمعیل (علیہ السلام) ان کے ہاں آج تک کنیز ہی چلی آرہی ہیں۔ واقعات بہر حال واقعات ہیں۔ انہیں کوئی کہاں تک جھٹلا سکتا ہے ؟ اسی جیوش انسائیکلوپیڈیا میں اکابر احبار یہود کے حوالہ سے ہے :۔” ہاجرہ فرشتہ ہی کو دیکھ کر ہیبت زدہ ہوئیں۔ ان کی عصمت مآبی اس سے ظاہر ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں اپنے پاس سے الگ کردیا۔ جب بھی ان کی وفاداری میں فرق نہ آیا۔ ان کے نام ایک معنی ” آراستہ “ بھی بیان ہوئے ہیں، اور یہ اس بنا پر کہ وہ زیور اخلاق وحسن عمل سے آراستہ تھیں “۔ جلد 6 صفحۃ 138) ۔ اور اسی میں اور ایک دوسری جگہ یہ روایت بھی درج ہے کہ ” بادشاہ نے خود اپنی صاحبزادی بطور کنیزہدیہ کردی “۔ (جلد 1 1 صفحہ 55) اور قصص یہود کا جو مجموعہ گنز برگ (Ginzberg) نے چار جلدوں میں مرتب کرکے شائع کیا ہے۔ اس میں ہے :۔ بادشاہ مصر نے عہد کرلیا کہ وہ ابراہیم کو ہر طرح پر قوت و شوکت بنا کر رہے گا۔ چناچہ اپنی بیٹی تک ہدیہ دے دی سارہ کی تعلیم وتربیت میں رہ کر وہ بھی ویسی ہی باخدا بن گئیں اور ہر طرح ابراہیم کی رفاقت کے قابل “ (جلد 1، صفحہ 228 وصفحہ 237) ۔ 459 ۔ (محض اپنے فضل و رحمت سے) کیا ٹھکانا ہے اس خشیت قلب کا اخلاق کے مجسمے ہیں۔ صداقت کے پتلے ہیں۔ اس پر بھی ڈرتے جاتے ہیں کہ دیکھئے نذر قبول بھی ہوتی ہے یا نہیں، باب تفعل کا ایک خاصہ تکلف ہے۔ اس لیے بعض نکتہ سنجوں نے لفظ تقبل سے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ محل بذات خود ہرگز قابل قبول نہیں۔ تمام تر ناقص ہے۔ اور مقبولیت محض لطف وکرم سے ہو رہی ہے نہ کہ کسی استحقاق کی بنا پر۔ ان التقبل عبارۃ عن ان یتکلف الاانسان فی قبولہ (کبیر) فی اختیار صیغۃ التفعل اعتراف بالقصور لما فیہ من الاشعار بالتکلف فی القبول (روح) مزدور اور معمار جب کام کرتے ہیں تو عمموما وعادۃ کچھ گنگناتے بھی جاتے ہیں۔ اللہ کے گھر کے یہ معمار بھی اللہ کے گھر کی دیواریں اٹھاتے وقت خاموش نہ تھے، یہاں ان کی مناجات بیان ہورہی ہے۔ فقہاء کا استنباط ہے کہ ہر عمل صالح کے بعد دعا کرنا مستحب ہے۔ چناچہ ختم نماز پر دعا اور افطار صوم کے وقت دعاء اسی قبیل سے ہیں ، 460 ۔ (آیت) ” سمیع “ سننے والا زبان سے نکلے ہوئے لفظ وقول کا۔ (آیت) ” علیم “ جاننے والا دل کے اندر کے اخلاص کا۔ مشرک قوموں کے حکماء وفلاسفہ نے سب سے زیادہ ٹھوکر حق تعالیٰ کی صفت علم ہی کے باب میں کھائی ہے۔ اور باری تعالیٰ کا علم (نعوذ باللہ) ناقص و محدود فرض کیا ہے۔ قرآن جو علم باری کے کامل و محیط ہونے کا شدومد سے اثبات کرتا ہے، اور اللہ کے علیم، سمیع، بصیر ہونے کو بار بار پیش کرتا ہے، اس کا ایک مقصد فلاسفہ کے اس وہم باطل کی تردید کرنا ہے۔
Top