Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 128
رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ١۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَاجْعَلْنَا : اور ہمیں بنادے مُسْلِمَيْنِ : فرمانبردار لَکَ : اپنا وَ ۔ مِنْ : اور۔ سے ذُرِّيَّتِنَا : ہماری اولاد أُمَّةً : امت مُسْلِمَةً : فرمانبردار لَکَ : اپنا وَاَرِنَا : اور ہمیں دکھا مَنَاسِکَنَا : حج کے طریقے وَتُبْ : اور توبہ قبول فرما عَلَيْنَا : ہماری اِنَکَ اَنْتَ : بیشک تو التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِيمُ : رحم کرنے والا
اے پروردگار ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا دے،461 ۔ اور ہماری نسل سے ایک فرمانبردار امت پیدا کر، 462 ۔ اور ہم کو ہمارے دینی قاعدے بتلادے،463 ۔ اور ہمارے حال پر توجہ رکھ،464 ۔ یقیناً تو تو بڑا توجہ فرمانے والا ہے، بڑا مہربان ہے،465 ۔
461 ۔ (اور زیادہ) (آیت) ” مسلمین “ کے معنی یہاں دو طرح کیے گئے ہیں۔ ایک اللہ کی توحید کے ماننے والے بلاشائبہ شرک وشرکت۔ اے موحدین مخلصین لانعبد الاایاک (کبیر) دوسرے اسلام کے عام احکام کے پابند۔ اے قائمین بجمیع شرائع الاسلام (کبیر) لیکن دونوں معنی ایک دوسرے کے منافی بالکل نہیں۔ مسلم کے ترجمہ فرمانبردار میں نہ وہ وسعت ہے، نہ وہ لطف جو خود لفظ مسلم میں ہے۔ مسلمون اے منقادون للحق مذعنون لہ (راغب) فرمانبردار بندے یا مسلم تو ہو اس وقت ہی تھے جب دعا کررہے تھے۔ دعا کا مفہوم صرف اس قدر ہے کہ ہماری فرمانبرداری میں مزید ترقی دے۔ والمعنی زدنا اخلاصا واذ عانا لک (کشاف) والمراد طلب الزیادۃ فی الاخلاص والاذعان اوالثبات علیہ (بیضاوی) 462 ۔ (آیت) ” امۃ مسلمۃ “ کے ترجمہ ” فرمانبردار امت “ میں وہ بلاغت ومعنویت کہاں جو قرآنی لفظ امت مسلمہ میں ہے دعا کی مقبولیت اسی سے ظاہر ہے کہ وہ امت آج تک اسی نام سے مشہور چلی آتی ہے، دوست دشمن سب کی زبان پر۔ ایک امریکی یہودی ٹوری ییل یونیورسٹی کا استاد اپنی اسلام دشمنی میں آکسفورڈ والے مارگولس آنجہانی کا پورا جانشین ہے۔ لیکن ایک بات بڑے پتے کی اس کی زبان سے بھی نکل گئی ہے کہتا ہے :۔ (” اسلام کی بنیاد تو حقیقۃ) اسمعیل کے ہاتھوں پڑی جو اہل عرب کے مورث اعلی ہیں “۔ (جیوش فاؤنڈیشن آف اسلام صفحہ 6 دیباچہ) (آیت) ” من ذریتنا “ یعنی ابراہیم واسمعیل (علیہما السلام) کی مشترک نسل سے، دعادونوں بزرگوار مل کر کررہے تھے، اس لیے ذریت سے مراد بنی اسمعیل ہی ہوسکتے تھے، برنابانامی، حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ایک بلند پایہ حواری (صحابی) ہوئے ہیں، ان کی انجیل کو مسیحیوں نے اپنے مذاق ومسلک کے بالکل ناموافق پاکر اس کی اصلیت ہی سے انکار کردیا ہے۔ اس انجیل کے نسخے انگریزی، عربی، اردوتینوں زبانوں میں موجود ہیں۔ اس میں صراحت کے ساتھ ہے کہ عہد الہی اسمعیل (علیہ السلام) کے ساتھ ہوا تھا نہ کہ اسحاق (علیہ السلام) کے ساتھ۔ وقولی لانی اقول لکم الحق ان العھد صنع باسمعیل لا باسحق (43:3 1) میری بات کا یقین کرو میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وعدہ اسمعیل سے کیا گیا تھا نہ کہ اسحاق سے۔ اور پھر ہے، وان الموعد صنع باسمعیل لا باسحق ( 142: 18) وعدہ اسمعیل (علیہ السلام) سے کیا گیا تھا نہ کہ اسحاق (علیہ السلام) سے۔ 463 ۔ (آیت) ” مناسکنا۔ یعنی عام دینی قاعدے خصوصا بیت اللہ کے حج وزیارت کے آداب وشعائر۔ اے شرائع دیننا واعلام حجنا (معالم) (آیت) ” ارنا “ اراء ۃ کے معنی یہاں آنکھ سے دکھلا دینے کے نہیں بلکہ سکھلا دینے بتلادینے کے ہیں۔ اے علمنا وعرفنا (معالم) فعل رائی کا تعدیہ جب دو مفعولوں کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی رؤیت کے نہیں علم کے ہوجاتے ہیں۔ ارانی اذاعدی الی مفعولین اقتضی من العلم (راغب) الرؤیۃ ھھنا بمعنی العلم (ابن قتیبہ) ابن حاجب نحوی اور ابوحیان مفسر نے اس معنی کے قبول کرنے سے انکار بھی کیا ہے لیکن جب تائید میں راغب اور زمخشری جیسے مستند امامان ادب ولغت کی شہادتیں موجود ہیں تو کسی کا انکار چل نہیں سکتا۔ وانکر ابن الحاجب واتبعہ ابوحیان ثبوت رأی بمعنی عرف وذکرہ الزمخشری فی المفصل والراغب فی مفرداتہ وھما من الثقات فلا عبرۃ بانکار ھما (روح) 464 ۔ (رحمت و شفقت ومغفرت کے ساتھ) وتوبۃ الرب علی عبدہ عودہ علیہ بالعفولہ عن جرمہ والصفح لہ عن و عقوبت ذنبہ مغفرۃ لہ منہ وتفضلا علیہ (ابن جریر) 465 ۔ (تو تیرے لیے ہماری اس دعا کو شرف قبول بخش دینا کچھ بنی دشوار نہیں)
Top