Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 131
اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسْلِمْ١ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
اِذْ قَالَ : جب کہا لَهُ : اس کو رَبُّهُ : اس کا رب اَسْلِمْ : تو سر جھکا دے قَالَ : اس نے کہا اَسْلَمْتُ : میں نے سر جھکا دیا لِرَبِّ : رب کے لئے الْعَالَمِينَ : تمام جہان
اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے) جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا کہ حکم بردار ہوجاؤ،472 ۔ وہ بولے میں حکم بردار ہوں سارے جہان کے پروردگار کا،473 ۔
472 ۔ اسلموا کا دوسرا ترجمہ ” اسلام لے آؤ “ یا ” مسلم ہوجاؤ “ بھی ہوسکتا ہے۔ پہلے بھی ذکر آچکا ہے اور یہاں اسے پھر یاد کرلیا جائے کہ قرآن مجید میں واقعات کا بیان ہمیشہ ترتیب تاریخی کے اعتبار سے نہیں ہوتا۔ اسلام لانے کے معنی ہیں اپنے آپ کو تمامتر خدائے واحد کے سپرد کردینا، اس کا پرستار بن جانا۔ عقیدہ، معاشرت، معاملت غرض کہ زندگی کے ہر بڑے چھوٹے شعبہ میں اسی کے قانون کو قبول کرنا۔ اور اس کے احکام کی اطاعت کرنا، اصطلاح میں اسلام و ایمان گویا مترادف ہے، اور یہی دین اسلام ہمیشہ انبیاء کا رہا ہے۔ 473 ۔ یعنی میں خدائے پروردگار عالم پر اسلام لے آیا، یہاں گویا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اشارۃ اپنے ایمان لانے کی وجہ بھی بیان کردی، یعنی اسلام میں کیوں نہ لاتا۔ ایک ہی پروردگار، ایک ہی حاکم مطلق، ایک ہی مالک، ایک ہی ربوبیت کے سارے شعبوں کا ناظم وہی ہے۔ میں اس پر ایمان کیسے نہ لاتا ؟ اس کے قانون سے باغی کیسے رہ سکتا !
Top