Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 141
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ١ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ١ۚ وَ لَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
تِلْکَ أُمَّةٌ : یہ امت قَدْ : تحقیق خَلَتْ : جو گزر گئی لَهَا : اس کے لئے مَا کَسَبَتْ : جو اس نے کمایا وَ : اور لَکُم : تمہارے لئے مَا کَسَبْتُمْ : جو تم نے کمایا وَ : اور لَا : نہ تُسْئَلُوْنَ : پوچھا جائے گا عَمَّاکَانُوْا : اس کے بارے میں جو وہ يَعْمَلُوْنَ : کرتے تھے
یہ ایک جماعت ہے جو گزر چکی،507 ۔ ان کا کیا ہوا ان کے آگے آئے گا اور تمہارا کیا ہوا تمہارے آگے آئے گا،508 ۔ اور جو کچھ وہ کرتے رہے اس کی پوچھ کچھ تم سے نہ ہوگی،509 ۔
507 ۔ (اور محض ان کے نام کا انتساب بغیر ان کے سے اعمال و عقائد کے ہرگز کافی نہیں) (آیت) ” تلک امۃ “ سے مراد ہیں قوم اسرائیل کے اکابر سلف، خصوصا اجداد ثلثہ ابراہیم واسحق ویعقوب (علیہ السلام) جن کی اولاد ہونے پر اسرائیلیوں کو حد سے زیادہ ناز تھا۔ نیز ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر 503 ۔ 508 ۔ (آخرت میں) یعنی نہ ان کے ایمان و اعمال صالحہ سے تمہیں کچھ نفع پہنچے گا، اور نہ تمہارے کفر و اعمال سیۂ سے انہیں کوئی ضرر ہوگا ، 509 ۔ یہود کی کتابوں میں آج تک یہ تعلیمات موجود ہیں کہ ” جس طرح انگور کی زندہ و شاداب بیل ایک بےجان ستون کے سہارے بڑھتی اور پھیلتی رہتی ہے۔ اسی طرح زندہ یہودی اپنے آنجہانی اور مرحوم مورثوں اور بزرگوں کے بل بوتے پر پروان چڑھتا رہتا ہے۔ اور تینوں اجدادا سرائیل نیز دوسرے صالحین واخیار نے اعمال صالحہ کا جو انبار عظیم لگا دیا ہے، اسی سے ان کی اولاد کو مجموعا ومنفردا برابر حصہ ملتا رہتا ہے۔ اور اس طرح کسی فرد میں خواہ کتنی ہی کمزوریاں ہوں اس کی نجات یقینی ہے “۔ قرآن حکیم اس ” نجات متوارث “ کے عقیدہ پر برابر ضرب شدید لگاتا جاتا ہے۔ نیز ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر 504 ۔
Top