Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 146
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنْهُمْ لَیَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَؔ
اَلَّذِيْنَ : اور جنہیں اٰتَيْنٰھُمُ : ہم نے دی الْكِتٰبَ : کتاب يَعْرِفُوْنَهٗ : وہ اسے پہچانتے ہیں كَمَا : جیسے يَعْرِفُوْنَ : وہ پہچانتے ہیں اَبْنَآءَھُمْ : اپنے بیٹے وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان سے لَيَكْتُمُوْنَ : وہ چھپاتے ہیں الْحَقَّ : حق وَھُمْ : حالانکہ وہ يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہیں
جن لوگوں کو ہم کتاب دے چکے ہیں،538 ۔ وہ آپ کو پہچانتے ہیں اس طرح جیسے کہ اپنی نسل والوں کو پہچانتے ہیں،539 ۔ اور بیشک ان میں کے کچھ لوگ خوب چھپاتے ہیں حق کو، حالانکہ جانتے ہوتے ہیں،540 ۔
538 ۔ عموم لفظ کے تحت میں مسیحی بھی داخل ہیں۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ مراد یہود ہیں۔ توریت وصحف قدیم کو مسیحی بھی مانتے ہیں۔ علماء بلاغت نے اشارہ کیا ہے کہ اس موقع پر صیغہ معروف (آیت) ” اتینھم الکتب “ ضمیر متکلم کی تصریح کے ساتھ صیغہ مجہول (آیت) ” اوتوالکتب “ سے کہیں زیادہ بلیغ وپر معنی ہے ، 539 ۔ یعنی خوب اچھی طرح بغیر کسی اشتباہ والتباس کے۔ مطلب یوں ہوا کہ پچھلے نوشتوں میں ایک نبی آخر الزمان کی آمد کی بابت پیش گوئیاں اس صراحت سے مذکور ہیں کہ یہود کو آپ کی شناخت میں کوئی دقت نہیں ہوسکتی۔ وہ جس طرح اسرائیلی انبیاء کو پہچان لیتے تھے، ٹھیک اسی طرح آپ کو بھی پہچان سکتے ہیں۔ (آیت) ” انبآء ھم “ کے لفظی معنی اپنے لڑکوں کے ہیں، لیکن ضمیر ھم سے مراد افراد واشخاص نہیں، بلکہ قوم یہود ونسل اسرائیل مجموعا ہے۔ یعنی ابناء اسرائیل لفظ عربی میں اولاد سے زیادہ وسیع معنی رکھتا ہے۔ اور ہمیشہ صلبی بیٹوں ہی کے معنی میں نہیں آتا، بلکہ جن جن پر فرزندی کا اطلاق مجازا ہوسکتا ہے ان سب پر حاوی ہے (آیت) ” یعرفونہ “ میں ضمیر ہ سے کیا مراد ہے ؟ قد ماء عموما اور اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ اس سے مراد بیت الحرام کو بہ حیثیت قبلۃ الانبیاء کے پہچاننا ہے۔ چناچہ تفسیر ابن جریر میں ابن عباس ؓ صحابی سے لے کر قتادہ، ابن زید، سدی، ابن جریج تابعین کے اقوال اسی معنی میں منقول ہیں۔ لیکن متوسطین اور متاخرین میں تقریبا سب کا اس پر اتفاق ہوگیا ہے۔ کہ مراد ذات رسالت سے ہے۔ اور دلائل اسی کے زیادہ مؤید ہیں۔ اور سند اس کی بھی تابعین سے مل جاتی ہے۔ یعنی یعرفون محمدا ﷺ (معالم) اے یعرفون رسول اللہ ﷺ (کشاف) ذکروا فیہ وجوھا احدھا انہ عائد الی رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔ والقول الثانی۔۔۔۔ واعلم ان القول الاول اظہر (کبیر) والضمیر لرسول اللہ ﷺ وان لم یسبق ذکرہ بدلا لۃ الکلام علیہ (بیضاوی) والضمیر عائد علی النبی ﷺ قال مجاھدو قتادۃ وغیرھما (بحر) ہ ظاہر ہے کہ ضمیر غائب ہے۔ لیکن اردو میں نہایت تعظیم کے موقع پر غائب ” ہ “ کے بجائے حاضر ” آپ “ لاتے ہیں۔ 540 ۔ یہود اور دوسرے معاندین کا یہ اخفائے حق دانستہ اور بہ ارادہ ہے۔ کسی معذوری، دانستہ غلط فہمی یا دلائل میں خفاء کا نتیجہ نہیں۔ (آیت) ” الحق “ حق سے مراد یہاں رسول اللہ ﷺ کا وہ مفصل، مکمل تعارف ہے، جو توریت اور دوسرے الہامی نوشتوں میں موجود ہے۔ ما فی کتبھم من صفۃ النبی ﷺ (ابن کثیر) اے یکتمون محمد ﷺ (ابن جریر، عن مجاہد) والحق المکتوم ھنا ھو رسول اللہ ﷺ قال قتادۃ و مجاھد (بحر) دوسرے معنی امر تحویل قبلہ کے بھی لیے گئے ہیں۔ قیل امر القبلۃ (کبیر) (آیت) ” وھم یعلمون “۔ اس ٹکڑے سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ یہ انکار کرنے والے عوام وجہلاء یہود نہیں، ان کے علماء و اکابر تھے ،
Top