Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 148
وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ١ؐؕ اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے وِّجْهَةٌ : ایک سمت ھُوَ : وہ مُوَلِّيْهَا : اس طرف رخ کرتا ہے فَاسْتَبِقُوا : پس تم سبقت لے جاؤ الْخَيْرٰتِ : نیکیاں اَيْنَ مَا : جہاں کہیں تَكُوْنُوْا : تم ہوگے يَاْتِ بِكُمُ : لے آئے گا تمہیں اللّٰهُ : اللہ جَمِيْعًا : اکٹھا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْر : قدرت رکھنے والا
اور ہر ایک کے لیے کوئی رخ ہوتا ہے جدھر وہ متوجہ رہتا ہے،542 ۔ سو تم نیکیوں کی طرف بڑھو،543 ۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تم سب کو پالے گا،544 ۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے،545 ۔
542 ۔ ہر قوم راست را ہے، دینے و قبلہ گاہے ! یعنی ہر قوم ہر امت نماز و عبادت کے لیے ایک مرکزی رخ مقرر رکھتی ہے، سو امت اسلامیہ کے لیے بھی ایک متعین قبلہ ناگزیر ہے۔ (آیت) ” لکل “ ہر ایک “ سے مراد ہر قوم یا ہر امت ہے اور حذف مضاف کی طرح حذف مضاف الیہ کی مثالیں عربی میں عام ہیں۔ ولم یقل لکل قوم اوامۃ لانہ معروف المعنی عندھم (کبیر) یعنی ذلک اھل الادیان (ابن کثیر) لکل طائفۃ من اھل الادیان (بحر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ بعض صوفیہ عارفین نے آیت کو حدیث نبوی کل میسرلما خلق لہ (ہر ایک کے لیے وہی آسان ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے) سے مؤید کر کے اس کی شرح میں کہا ہے کہ تکوینی وتشریعی دونوں حیثیتوں سے اللہ نے انسانوں کے حالات مختلف رکھے ہیں، اور متعدد طبقے ان کے پیدا کردیئے ہیں۔ کوئی کاشتکاری میں لگا ہے، کوئی تجارت میں، اور کوئی صنعت وحرفت میں۔ اسی طرح دینی حیثیت سے بھی، کوئی احادیث نبوی جمع کررہا ہے۔ کوئی حفظ قرآن کررہا ہے، کوئی مسائل فقہ کا استنباط کررہا ہے، کوئی قرآن کی تفسیر وترجمانی میں لگا ہوا ہے۔ یہ سب مختلف طریقے، راستے ہیں اللہ کی طرف کے۔ اللہ ان سارے طریقوں کو اپنے بندوں کے ؔ ذریعہ سے آباد رکھنا چاہتا ہے۔ تو جو شخص جس طریق پر بھی اللہ کی رضا کے قصد سے چلے گا، اللہ اس کے لیے قبول ووصول آسان کردے گا۔ ھو اخفش نحوی اور زجاج لغوی کا قول نقل ہوا ہے کہ یہ ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ ہی رخوں کا پھیرنے والا ہے۔ قیل ھو عائد علی اللہ تعالیٰ قال الاخفش والزجاج (بحر) 543 ۔ (اے مسلمانو ! ) خطاب امت اسلامیہ کو ہے کہ حسن عمل کی طرف بڑھو، اور جملہ مذاہب وادیان کے اتحاد قبلہ کے خیال خام میں نہ پڑے رہو، خیرات۔ خیر کی جمع وسیع وعام مفہوم ہے۔ رضا الہی کے لیے موافق شرع جملہ امور کو شامل۔ وصول الی اللہ کے بیشمار راستوں پر حاوی۔ (آیت) ” فاستبقوا “ عارفین نے کہا ہے کہ ہر وقت جو چیز اس وقت کے لحاظ سے خیر ومصلحت ہو، اس کی طرف بڑھنا ہی ” استباق خیر “ ہے۔ 544 ۔ (اور تمہاری نمازوں میں وحدت پیدا کردے گا) ساری امت کا قبلہ ایک خاص مکان کو مقرر کردینے سے ایک خیال یہ پیدا ہوسکتا تھا کہ یہ تو ایک صورت انتشار کی سی پیدا ہوگئی، کوئی شمال کی طرف رخ کرے گا، کوئی جنوب کی طرف، وقس علی ھذا۔ شبہ کے جواب میں ارشاد ہورہا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ شبہ محض سطحی ہے۔ مقصود تو نماز اور نمازیوں میں وحدت پیدا کرنا ہے۔ تم شمال، جنوب، شرق، غرب، دنیا کے کسی خطہ، کسی علاقہ میں بھی متفرق ومنتشر ہو، عالم الغیب والشہادۃ کو تو بہرحال علم ہے کہ تم رخ ایک ہی طرف کیے ہوئے ہو۔ وہ کعبہ کی طرف پڑھی ہوئی ساری نمازوں کو ایک حکم میں رکھے گا۔ یجعل اللہ تعالیٰ صلاتکم مع اختلاف جھا تھا فی حکم صلاۃ متحدۃ الجھت (روح) اے یجمعکم ویجعل صلاتکم کلھا الی جھۃ واحدۃ قالہ الزمخشری (بحر) دوسرے معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ اشارہ یہاں موت و قیامت کی طرف ہے، یعنی تم دفن جہاں کہیں بھی ہوگے۔ اللہ تعالیٰ سب کو حشر میں یکجا کر دے گا۔ ف، 545 ۔ (اور اس کے احاطہ قدرت سے کوئی چیز بھی خارج نہیں) یہ ایک اصولی جواب بہت سے شبہات کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے مسائل میں انسان کو جہاں کہیں بھی استبعاد عقلی معلوم ہوتا ہے اس کی بنیاد ہمیشہ اسی مغالطہ پر ہوتی ہے کہ اپنے اوپر قیاس کرکے اللہ کے قوی کو بھی محدود، اور اس کی قدرت کو بھی زمان، مکان وغیرہ کی قیود کا پابند سمجھ لیا جائے۔ قرآن مجید نے اس بشری ذہنیت (سائیکالوجی) کو پوری طرح سمجھ کر بار بار اسی حقیقت کی طرف تنبیہ کی ہے، کہ خدائی فعلیت پر حکم لگاتے وقت خدائی قدرت کی بھی وسعت بےپایاں کو تو یاد رکھا کرو۔
Top