Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 20
یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْ١ؕ كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِ١ۙۗ وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يَكَادُ : قریب ہے الْبَرْقُ : بجلی يَخْطَفُ : اچک لے اَبْصَارَھُمْ : انکی نگاہیں كُلَّمَآ : جب بھی اَضَآءَ : ّّوہ چمکی لَھُمْ : ان پر مَّشَوْا : چل پڑے فِيْهِ : اس میں وَاِذَآ : اور جب اَظْلَمَ : اندھیرا ہوا عَلَيْهِمْ : ان پر قَامُوْا : وہ کھڑے ہوئے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ لَذَھَبَ : چھین لیتا بِسَمْعِهِمْ : ان کی شنوا ئی وَاَبْصَارِهِمْ : اور ان کی آنکھیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَىْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائی ہی اچک لے جائے56 ۔ وہ جب ان پر چمکتی ہے تو اس کی روشنی میں یہ چلتے ہیں، اور جہاں ان پر اندھیرا ہوا (تو بس) کھڑے رہ جاتے ہیں57 ۔ اللہ اگر چاہتا تو ان کے کان اور ان کی بینائی سلب کرلیتا58 ۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے59 ۔
56 (اور ان کی آنکھیں خیرہ ہوکررہ جائیں) تشبیہ مرکب کے سلسلہ میں بیان ہورہا ہے آثار غلبہ اسلام کی قوت وشدت کا، کہ یہ منافقین کی آنکھوں کو خیرہ کردینے کے لیے اور انہیں مرعوب کرنے کے لیے کافی ہے۔ وھذا تمثیل لشدۃ الامر علی المنافقین (کشاف) 57 ۔ یعنی جب اسلام کی مادی فتح مندیاں اور کامیابیاں دیکھتے تو ان منافقین ومذبذبین کے قدم گویا اضطرار اسلام کی طرف بڑھنے لگے ہیں۔ طلب حق تو ان کے دل میں ہوتی ہی نہیں البتہ مرعوبیت کچھ دیر کے لیے آمادہ کردیتی ہے۔ لیکن جب اہل ایمان کو ابتلاء پیش آنے لگتے ہیں تو یہ منافقین ومذبذبین انکار اور بےیقینی کے مقام پر پھر ٹھٹک جاتے ہیں۔ اور اسلام کی طرف ان کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں۔ (آیت) ” کلما اضآء لھم مشوا فیہ “ کلما اصاب المنافقین من عز الاسلام اطمانوا الیہ (ابن کثیر۔ عن ابن عباس ؓ (آیت) ” واذا اظلم علیم قاموا۔ واذا اصاب الاسلام نکبۃ قاموا لیرجعوا الی الکفر (ابن کثیر۔ عن ابن عباس ؓ مرشد تھانوی مدظلہ نے فرمایا کہ ایسا ہی حال اس سالک کا ہے جو حالت بسط میں طاعات میں لگا رہتا ہے اور قبض میں چھوڑ بیٹھتا ہے۔ 58 ۔ (جیسا معاملہ کہ بعض اگلی قوموں کے ساتھ پیش بھی آچکا ہے) توریت میں ہے :۔ جب وہ اس کی طرف اترے توالیسع نے خداوند سے دعا مانگی اور کہا کہ مہربانی کرکے ان لوگوں کو اندھا کردیجئے۔ سو اس نے جیسا کہ الیسع نے کہا تھا ان کو اندھا کردیا۔ “ (2 ۔ سلاطین۔ 2: 18) (آیت) ” ولوشآء اللہ۔ یعنی مشیت الہی اگر یہی ہوتی، قانون تکوینی اگر اب بھی یہی ہوتا۔ اس سے اشارہ یہ بھی نکل آیا کہ مؤثر حقیقی صرف ارادۂ الہی ہے۔ اور اسباب ظاہری میں تاثیر جو کچھ پیدا ہوتی ہے، مشیت الہی سے پیدا ہوتی ہے۔ بذات خود موجود نہیں ہے۔ والتنبیہ علی ان تاثیر الاسباب فی مسببا تھا مشروط بمشیۃ اللہ تعالیٰ (بیضاوی) 59 ۔ (چنانچہ اس پر قادر ہے، اور اب بھی یہی کرسکتا ہے) (آیت) ” قدیر “ صیغہ مبالغہ ہے، زور وقوت میں قادر سے زیادہ۔ اسلام کا خدا قادر مطلق ہے، ہمہ تواں ہے۔ مصری، ہندی، یونانی خداؤں کی طرح ناقص اور محدود القوی نہیں۔
Top