Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 208
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً١۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے ادْخُلُوْا : تم داخل ہوجاؤ فِي : میں السِّلْمِ : اسلام كَآفَّةً : پورے پورے وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْا : نہ پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اے ایمان والو اسلام میں پورے داخل ہوجاؤ،760 ۔ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو،761 وہ تو تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے،762
760 ۔ حکم خاص طور پر قابل غور ہے۔ اسلام صرف چند عقائد یا صرف چند عبادات یا صرف چند قوانین کا نام نہیں۔ وہ تو ایک جامع ومانع نظام حیات ہے، ایک مکمل ومنظم دستور زندگی ہے۔ انسانیت کے ایک ایک شعبہ ہر ہر گوشہ پر حاوی۔ اور اس کا ہر جزو، اس کے کل سے، اس کے دوسرے اجزاء سے نہایت درجہ ملحق ومرتبط، یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص توحید تو اسلام سے لے لے، لیکن عبادات کے لیے مسجد، مندر، کلیسا سب کو یکساں سمجھے یا رسالت پر تو ایمان لے آئے، لیکن معاشیات کے قاعدے کارل مارکس سے اور اخلاق کے ضابطے گوتم بدھ سے لینے جائے، معادیات، معاشیات، اخلاقیات اجتماعیات، اسلام کے سب اپنے ہیں، کسی اور فلسفہ کسی اور دین کسی اور نظریہ کی پیوندکاری اس کے ساتھ نبھ ہی نہیں سکتی۔ آیت کا حکم عام ہے، لیکن شان نزول کی روایتوں سے پایا جاتا ہے کہ خطاب خاص نو مسلم یہود کی طرف تھا، یہ اسلام لانے کے بعد بھی چاہتے ہیں، کہ کچھ نہ کچھ رعایت اپنے عقائد قدیم کی کیے جائیں، اور اسلام کی ایک مستقل شاخ یہود یا نہ اسلام قائم کرلیں۔ جس طرح بعد کو گمراہ فرقوں کے اثر سے معتزلی اسلام، شیعی اسلام، نیچری اسلام وغیرہ بہت سے ” اسلام “ قائم ہو کر رہے ! (آیت) ” اخلوا “ خود ہی صیغہ امر وجوب کے معنی دے رہا ہے۔ پھر اس کے حال (آیت) ” کافۃ “ نے اسے کس درجہ مؤکد کردیا۔ اور یہ قاعدہ اشارۃ النص واجب ہوگیا کہ ظاہری، باطنی، انفرادی، اجتماعی، اعتقادی، عبادتی سارے اعمال و امور میں اسلام ہی کا رنگ چڑھا رہے۔ (آیت) ” السلم “۔ سلم کے لفظی معنی صلح وامن کے ہیں اور یہ لفظ حرب کے مقابل آتا ہے۔ السلم والسلم الصلح وقیل السلم اسم بازاء الحرب (راغب) لیکن السلم سے مراد دین اسلام لی گئی ہے اہل لغت نے بھی اسے قبول کیا ہے اور صحابیوں اور تابعین سے بھی مروی ہے۔ اے فی الاسلام (تاج) اے ادخلوا فی الاسلام (ابن جریر، عن ابن عباسؓ ومجاہد وقتادۃ) وفسر السلم بالاسلام (نہر) 761 ۔ یہ اس طرح مثلا کہ اپنے کو کہلاتے تو رہو مسلمان، لیکن رسمیں اختیار کرلو مجوس عجم کی، معاشرت لے لو مشرکین ہند کی، قانون فوجداری اختیار کرلو ملحدین فرنگ کا، معاملات کرنے لگو دستور یہود کے مطابق، شیطان کے نقش قدم پر چلنا یہی ہے کہ اسلام میں غیر اسلام کی آمیزش کی جانے لگے، اور اسے کوئی اصلاحی یا تجدیدی کا رنامہ سمجھا جانے لگے۔ اسلام کا مل فرض ہے اور اس کا کامل ہونا جب ہے کہ جو امر اسلام میں قابل رعایت نہ وہ اس کی رعایت دین ہونے کی حیثیت سے نہ کی جائے اور ایسے امر کو دین سمجھنا یہ ایک شیطانی لغزش ہے۔ اور بہ نسبت ظاہری معاصی کے اس کے اشد ہونے کے سبب یہ عذاب کا زیادہ مظنہ ہے (تھانوی (رح ) 762 ۔ (وہ تو تمہیں طرح طرح کی آمیزشوں اور جدتوں کا مشورہ دیتا ہی رہے گا، خوشنما عنوانات کے ساتھ) آیت میں وعید ونتبیہ شدید ہے۔ ایک طرف جاہل ومبتدع اہل تصوف وطریقت کے لیے اور دوسری طرف ” روشن خیال “ اہل تجدد کے لیے۔
Top