Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 211
سَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ كَمْ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ اٰیَةٍۭ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
سَلْ : پوچھو بَنِىْٓ اِسْرَآءِ يْلَ : بنی اسرائیل كَمْ : کس قدر اٰتَيْنٰھُمْ : ہم نے انہیں دیں مِّنْ : سے اٰيَةٍ : نشانیاں بَيِّنَةٍ : کھلی وَ : اور مَنْ : جو يُّبَدِّلْ : بدل ڈالے نِعْمَةَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جو جَآءَتْهُ : آئی اس کے پاس فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
(آپ) بنی اسرائیل سے پوچھ دیکھئے ہم نے انہیں کھلی نشانیاں کتنی دے رکھی تھیں766 اور جو کوئی اللہ کی نعمت کو بدل ڈالے، بعد اس کے کہ وہ اس کو پہنچ چکی ہو تو اللہ بھی سزا دینے میں بڑا سخت ہے،767 ۔
766 (اور پھر وہ ہر آیت کا انکار وکفران بھی کس شدومد سے کرتے رہے) (آیت) ” ایۃ بینۃ۔ یہ کھلی ہوئی نشانیاں کس چیز کی تھیں ؟ خدائے تعالیٰ کے مخصوص فضل وکرم کی، اور بنی اسرائیل کی مخصوص سرافرازیوں کی مثلا کتاب توریت اور دوسرے آسمانی صحیفوں کا نزول یا اس نسل میں انبیائے کرام کا مسلسل ظہور، وقس علی ھذا۔ سل لفظ سل سے مستنبط ہوتا ہے کہ یہ وہ تاریخی حقائق ہیں کہ اسرایلی ان سے انکار کر ہی نہیں سکتے۔ 767 (عام اس سے کہ اس سزا کا ظہور فوری اور اسی دنیا میں ہو، یا بہ تاخیر عالم آخرت میں) (آیت) ” نعمۃ اللہ “۔ نعمت ادنی بھی ہو، جب بھی نعمت ہی ہے۔ اور بہر صورت قابل قدر، چہ جائیکہ ایسی اعلی نعمتیں جن سے بنی اسرائیل کی مدتوں سرفرازی رہی۔ (آیت) ” یبدل “۔ تبدیل کے معنی ہیں کسی شے کی اصل حقیقت کو کچھ کا کچھ دینا، اس شے کے اندر تحریف کردینا، اسے مسخ کردینا، اور اللہ کی نعمتوں کے اندرتبدیلی ایک تو یہ ہوئی کہ جو چیزیں ہدایت و استفادہ کے لیے تھیں، الٹا انہی کو فسق وکفر کے کاروبار میں لگا دیا جائے، اور یا پھر یہ کہ جو کلام باعث ہدایت ہوتا تھا، اسی میں میں تصحیف وتحریف کا عمل شروع کردیا جائے، اہل تفسیر نے دونوں شقیں اختیار کی ہیں۔ وتبدیلھم ایاھا ان اللہ اظھرھا لتکون اسباب ھداھم فجعلھا اسباب ضلالتھم اوحرفوا ایات الکتاب الدالۃ علی دین محمد ﷺ (کشاف۔ مدارک) یجعلھا سبب الضللۃ وازدیاد الرجس اوبالتحریف والتاویل الزائغ (بیضاوی) (آیت) ” شدید العقاب۔ نعمۃ اللہ “ کی وسعت اطلا، دینی ودنیوی ہر قسم کی نعمتوں کو شامل ہے اور یہاں ہر نعمت کے مسخ کر ڈالنے پر عذاب شدید کی وعید ہے۔ اب نعمت اگر دینی ہے، مثلا کتاب الہی یا ظہور انبیاء تو اس میں تحریف یا انکار پر عذاب اخروی کا وقوع ظاہر ہی ہے، لیکن نعمت اگر محض دنیوی ہے، مثلا دولت، صحت، سلطنت، تو اس کے سوء استعمال کا خمیازہ بیماری، ناکامی، افلاس، ذلت وغیرہ کی شکل میں اٹھانا بھی مشاہدہ کی چیزیں ہیں (آیت) ” من بعد ما جآء تہ “ کا فقرہ زور دینے اور تاکید کے لیے ہے۔ یعنی بعد اس کے کہ اس نعمت کا پوری طرح تحقق ہو سکے۔ اس کے پوری طرح فہم ومعرفت میں آجانے کے بعد پھر جو کوئی اس کے ساتھ کفران کرے، آیت آج امت کے کس قدر حسب حال اور کس درجہ قابل غور ہے۔ اللہ کی عطا کی ہوئی ہر دینی ودنیوی نعمت کے ساتھ آج ہمارا کیا معاملہ ہے ؟ کس نعمت کا حق ہم ادا کررہے ہیں، کونسی نعمت ایسی ہے جس کی روح ہم نے نہیں بدل ڈالی ؟ ہماری نمازیں، ہمارے روزے، ہمارے حج، ہماری ساری عبادتیں مغزوروح سے خالی، ان عبادتوں کے خالی ڈھانچے رہ گئے ہیں، اخلاق و اتحاد کی دولت ہم نے الگ برباد کرڈالی۔ نتیجہ جو نکلا، سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ ہاں ایک بات اور مسیحیوں کے ہاں ایک عربی داں انگریز پادری ڈاکٹر وہیری wherry ابھی حال میں گزرے ہیں۔ مسلمانوں سے مناظرہ کیا کرتے تھے، انگریزی میں مختصر سی تفسیر بھی لکھی ہے۔ اس آیت کے حاشیہ پر لکھتے ہیں :۔ ” مسلمانوں نے متن قرآن کی جو اتنی سخت حفاظت رکھی ہے، اس کا ایک سبب اسی قسم کی تہدیدی آیتیں ہیں۔ “ خیر، اس سے کم از کم محفوظیت قرآن پر شہادت تو ایک دشمن اسلام کی زبان سے ہاتھ آگئی۔
Top