Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 212
زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ یَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۘ وَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
زُيِّنَ : آراستہ کی گئی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوا : کفر کیا الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيَسْخَرُوْنَ : اور وہ ہنستے ہیں مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اتَّقَوْا : پرہیزگار ہوئے فَوْقَهُمْ : ان سے بالا تر يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَاللّٰهُ : اور اللہ يَرْزُقُ : رزق دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
خوشنما کردی گئی ہے دنیوی زندگی ان لوگوں کی نظر میں جو کافر ہیں،768 اور وہ ان لوگوں سے تمسخر کرتے ہیں جو ایمان لے آئے ہیں،769 ۔ (درآنحالیکہ) جو لوگ ڈرتے رہتے ہیں وہ ان سے (کہیں) اوپر ہوں گے قیامت کے دن،770 ۔ اور اللہ جسے چاہتا ہے بیشمار رزق دیتا رہتا ہے،771 ۔
768 ۔ (اور اس کا ساز و سامان، جاہ وحشم، باغ ومکان، موٹر اور ریڈیو، کوٹھی اور فرنیچر، سب باوجود فانی وبے حقیقت ہونے کے انہیں نہایت اہم وقابل وقت نظر آتا ہے، اور ان کے دلوں کے لیے خاص کشش رکھتا ہے) جو کافر ہے وہ اسی دنیوی زندگی کی مادی لذت و دولت، عیش و عشرت پر مٹارہتا ہے۔ اسی کو مہتم بالشان سمجھے ہوئے، اسی پیمانہ سے سب کو ناپتا رہتا ہے۔ وہ بےحد تنگ نظر ہوتا ہے۔ وہ اس برائے نام عیش پر عیش سرمدی و عشرت لازوال کو قربان کیے رہتا ہے۔ آیت کا یہ مطلب نہیں کہ کافر اس باب میں معذور ہے۔ حب دنیا طبعا اس پر اتنی غالب کردی گئی ہے کہ وہ اس کے ترک ہی پر قادر نہیں، ایسا ہرگز نہیں، کافر تو کہتے ہی اس کو ہیں، جو بلاکسی معذوری کے، اپنے قصد واختیار سے حق کے بجائے باطل کی راہ اختیار کرے اور دنیا کی خوشنمائی کا آنکھوں میں بس جانا، یہ تو کفر کا نتیجہ اور معلول ہے، نہ کہ اس کا باعث وسبب، اپنے ارادہ کا سوء استعمال تو وہ پہلے ہی کرچکا، محض نتیجہ کے طور پر مشیت تکوینی نے اس کی کوشش کو کامیاب کردیا۔ 769 ۔ (اور سامان دینوی سے محروم ہیں) کافر اسی غلط معیار کی بنا پر، اسی کج نگاہی سے کام لے کر اپنے کو بڑا سمجھتا، اور ایمان وطاعت کی بےوقعتی اور تحقیر کرتا رہتا ہے۔ نگاہ کی یہ کجی، یہ غلط بینی ہی دنیا کا شدید ترین ابتلا ہے، حدیث نبوی کی یہ دعا اسی فتنہ سے بچنے کے لیے ہے ” اللہم ارنا الحق حقا وارنا الباطل باطلا اور عارف رومی کی یہ مناجات بھی اسی موقع کے لیے ہے۔ ع : انچہ درکون ست اشیاہر چہ ہست وانما جان رابہر صورت کہ ہست۔ آب خوش را صورت آتش مدہ اندر آتش صورت آبے منہ۔ 770 ۔ (کہ وہ دن وہ کشف حقائق کا) (آیت) ” الذین اتقوا “ یعنی اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ یا کفر وشرک سے بچتے رہتے ہیں۔ (آیت) ” فوقھم “۔ یعنی درجہ و مرتبہ میں ان سے ہزار چند بڑھے ہوئے ہوں گے۔ لانھم فی علیین وھم فی اسفل السافلین (بیضاوی) 771 ۔ مطلب یہ ہوا کہ دنیوی مال و دولت کا تعلق مصالح تکوینی سے ہے۔ سو یہ مال و دولت کی افراط، یہ روپیہ کی ریل پیل، یہ بڑی بڑی تجارتی کوٹھیاں اور بڑے بڑے ساہوکارے، ہرگز کوئی معیار مقبولیت یا حق وصداقت کا نہیں۔ چاہیے وہ جاہ وتمول ذاتی وشخصی ہو، یا قومی واجتماعی۔ کوئی اس میں بھول نہ پڑے۔ اور ” قومی اقبال مند ی “ پر نہ مغرور ہو، نہ اس سے مرعوب ہو،
Top