Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 224
وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَ تُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَلَا تَجْعَلُوا : اور نہ بناؤ اللّٰهَ : اللہ عُرْضَةً : نشانہ لِّاَيْمَانِكُمْ : اپنی قسموں کے لیے اَنْ : کہ تَبَرُّوْا : تم حسن سلوک کرو وَ : اور تَتَّقُوْا : پرہیزگاری کرو وَتُصْلِحُوْا : اور صلح کراؤ بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اللہ (کے نام) کو اپنی قسموں کے ذریعہ سے اپنی نیکی کے اور اپنے تقوی کے اور اپنی اصلاح خلق کے کاموں کے حق میں حجاب نہ بنا لو،835 ۔ اور اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے،836 ۔
835 ۔ عرب جاہلیت کے جاہلانہ دستوروں میں سے ایک دستور یہ تھا کہ خدا کی قسم کھا کھا کر یہ کہہ بیٹھتے تھے کہ ہم فلاں اور فلاں کام نیکی کا تقوی کا، اصلاح خلق کا نہ کریں گے۔ اور جب کوئی کہتا تو یہی عذر پیش کردیتے کہ ہم تو اس کی قسم کھاچکے ہیں ! ان اعمال خیر کا ترک یوں بھی ہر صورت میں مذموم تھا، چہ جائیکہ حضرت حق کے اسم بزرگ اور اس کی قسم کی بجائے قرب حق کے اس سے دوری کا ذریعہ بنا لیا جائے۔۔ آیت اسی شعار جاہلی کی تردید میں ہے۔ (آیت) ” عرضۃ “ کے عام ومتداول معنی ہدف یا نشانہ کے ہیں اور بعض نے یہاں بھی یہی معنی رکھے ہیں، عرضۃ لایمانکم اے نصبا لھا (جوہری) جعلتہ عرضتہ لکذا نصبتہ لہ (قاموس) لیکن ایک دوسرے معنی حجاب یا مانع کے بھی ہیں۔ اور یہاں یہی زیادہ چسپاں ہیں۔ اے حاجزا لما حلفتم علیہ (کشاف) قالوا العرضۃ عبارۃ عن المانع (کبیر) فقہاء نے بلاضرورت اور کثرت سے قسمیں کھاتے رہنے کو یوں بھی ناپسند کیا ہے کہ اس میں اللہ کے نام کی بےتوقیری ہے۔ چہ جائیکہ قصدا جھوٹی قسمیں کھانا ! 836 ۔ (آیت) ” سمیع “ خوب سننے والا تمہارے اقوال کا، اس لیے ہر بات سوچ سمجھ کر منہ سے نکالو، (آیت) ” علیم “ خوب جاننے والا تمہارے احوال کا۔ اس لیے نیت میں ہر وقت اخلاص رکھو۔
Top