Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 225
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
لَا يُؤَاخِذُكُمُ : نہیں پکڑتا تمہیں اللّٰهُ : اللہ بِاللَّغْوِ : لغو (بیہودہ) فِيْٓ : میں اَيْمَانِكُمْ : قسمیں تمہاری وَلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَاخِذُكُمْ : پکڑتا ہے تمہیں بِمَا : پر۔ جو كَسَبَتْ : کمایا قُلُوْبُكُمْ : دل تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
اللہ تمہاری قسموں میں سے لایعنی (قسم) پر مؤخذہ نہ کرے گا البتہ تم سے اس (قسم) پر مؤاخذہ کرے گا،837 ۔ جس پر تمہارے دلوں نے قصد کیا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا ہے، بڑا برد بار ہے،838 ۔
837 ۔ یعنی گرفت ان قسموں پر ہوگی، جن میں جھوٹ کی آمیزش بالقصد کی گئی ہے۔ آخرت میں بھی انہی پر داروگیر ہے، اور دنیا میں بھی ان کے لیے کفارہ ہے (آیت) ” باللغوفی ایمانکم “ مراد ان قسموں سے ہے، جو ناواقفیت کی بنا پر یا بےخیالی میں محض عادۃ زبان سے نکل جاتی ہیں، اور جھوٹ کی آمیزش ان میں بلاقصد ہوجاتی ہے، فقہاء نے اس نوعیت کی ساقط الاعتبار قسموں کی کئی قسمیں کی ہیں، ان کا تعلق ماضی کے واقعات سے بھی ہوسکتا ہے اور آئندہ کے ارادوں سے بھی۔ ان کی تفصیلات اور ان کے احکام کتب فقہ میں ملیں گے۔ 838 (آیت) ” غفور “ وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ چناچہ اسی شان غفرکاتقاضہ ہے کہ اس نے لایعنی قسموں پر مؤاخذہ کو معاف کردیا۔ (آیت) ” حلیم “ وہ بردبار ہے۔ چناچہ اسی شان حلم کا تقاضہ ہے کہ اس نے ارادی جھوٹی قسموں پر بھی سزا فورا نہ دی بلکہ قیامت تک کے لیے ملتوی کردیا۔
Top