Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 227
وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِنْ : اور اگر عَزَمُوا : انہوں نے ارادہ کیا الطَّلَاقَ : طلاق فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : خوب سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اگر طلاق (ہی) کا پختہ ارادہ کرلیں،841 ۔ تو بیشک اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے،842 ۔
841 (اتنے دنوں کے غوروفکر کے بعد بھی) طلاق نام ہے زن وشوہر کے باہمی تعلق کے باضابطہ وکامل انقطاع کا۔ اسلام سے قبل دنیا میں طلاق سے متعلق عجب افراط وتفریط قائم تھی، افراط یہود کے ہاں تھی اور تفریط مسیحیوں کے ہاں۔ یہود کے ہاں نہ کوئی قید طلاق پر عائد تھی، نہ شوہر پر اس باب میں کوئی ذمہ داری تھی۔ اس کا جب جی چاہتا وجہ بلاوجہ، بس ایک طلاق نامہ لکھ کر بیوی سے چھٹکارا حاصل کرلیتا۔ بیوی اسی وقت دوسرا مرد کرسکتی تھی، توریت کے قانون کے الفاظ یہ ہیں :۔ اگر کوئی مرد کوئی عورت لے کے اس سے بیاہ کرے، اور بعد اس کے ایسا ہو کہ وہ اس کی نگاہ میں عزیز نہ ہو، اس سبب سے کہ اس نے اس میں سے کوئی پلید بات پائی، تو وہ اس کا طلاق نامہ لکھ کے اس کے ہاتھ دے، اور اسے اپنے گھر سے باہر کرے، اور جب وہ اس کے گھر سے نکل گئی، تو جا کے دوسرے مرد کی ہو وئے۔ “ (استثناء۔ 24: 1، 2) اس آزادی اور بےقیدی کے مقابلہ میں مسیحیوں نے یہ سختی اور تنگی اختیار کی کہ زن وشوہر میں علیحدگی کی کوئی گنجائش ہی نہ رکھی، انجیل کے الفاظ ہیں :۔ ” جیسے خدا نے جوڑا ہے اسے آدمی جدا نہ کرے۔ جو کوئی اپنی بیوی کو چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے، وہ اس پہلی کے خلاف زنا کرتا ہے۔ اور اگر عورت اپنے شوہر کو چھوڑ دے، اور دوسرے سے بیاہ کرے تو زنا کرتی ہے۔ “ (مرقس۔ 10:7 ۔ 12) ” میں نہیں بلکہ خداوند حکم دیتا ہے کہ بیوی شوہر سے علیحدہ نہ ہو “۔ ( 1 ۔ کرنتھیون۔ 7: 10) چناچہ مسیحی آبادی کے سوا داعظم یعنی فرقہ کیتھولک کے ہاں تو طلاق مطلقانا جائز ہے۔ اور بجز موت کے کوئی صورت میاں بیوی میں افتراق کی ممکن نہیں۔ اور یہی فرقہ اسلام سے قبل موجود تھا۔ پروٹسٹنٹ فرقہ ظہور اسلام سے صدیوں بعد پیدا ہوا۔ اسکے ہاں البتہ اجازت ہوئی ہے۔ لیکن صرف اس صورت میں کہ پہلے عدالت میں کسی ایک فریق کا ارتکاب زنا یا ظلم وجور ثابت ہولے ! یہ حال ان قوموں کا تھا۔ جو اہل کتاب تھیں، یعنی بہرحال ان کے قانون کی بنیاد آسمانی کتابوں ہی پر تھی، رہیں قدیم جاہلی اور مشرک ” مہذب “ ” ترقی یافتہ “ قومیں۔ سو ایک طرف یونانیوں میں، ہندوؤں میں، اور ایک عہد خاص تک رومیوں میں طلاق سے کوئی واقف ہی نہ تھا، بلکہ ہندو مذہب میں تو آج تک طلاق ناجائز چلی آرہی ہے۔ گوحالات سے مجبور ہو کر اس کے جائز کرانے کے آج بڑے زور انگریزی ہند میں بھی اور ریاستوں میں بھی کاؤنسلوں او اسمبلیوں میں لگائے جارہے ہیں۔ دوسری طرف رومیوں میں عہد جمہوریت کے خاتمہ پر، طلاق کے جائز ہونے کے ساتھ ہی اس کا جوز ور بندھا تو گویا شرافت اور طلاق لازم وملزوم ہوگئے ! دنیا کے دوسرے بڑے بڑے مذہبوں اور بڑی بڑی ” مہذب “ قوموں کی یہ بےاعتدالیاں اور افراتفریاں پیش نظر رہیں۔ ، جب جا کر شریعت اسلام کی حکمتوں اور اس کے پیدا کیے ہوئے توازن و اعتدال کی قدر ہوگی، اسلام نے فطرت بشری کا بالکل صحیح اندازہ کرکے یہ حکم دیا کہ جب زوجین میں ناموافقت لاعلاج حدتک پہنچ جائے (اور اس ناموافقت کے اسباب کا احاطہ واستقصاء ممکن ہی نہیں، ہر شخص کے لیے کہنا چاہیے کہ الگ الگ ایک سبب و محرک ہوتا ہے) اور دوسری صورتیں موافقت پیدا کرنے کی ناکام ہولیں، تو آخری علاج یہ ہے کہ فریقین ہنسی خوشی اور باضاطبہ معاہدۂ نکاح کو فسخ کرکے ایک دوسرے سے مستقل علیحدگی اختیار کرلیں۔ اور اسی کا اصطلاحی نام طلاق ہے اور اس انقطاعی عمل کو بھی مطلق نہیں چھوڑ دیا ہے، بلکہ اس پر متعدد پابندیاں بھی عائد کردی ہیں۔ آگے ذکر انہیں قیود و شرائط کا آئے گا۔ 842 (اس لیے خوب اپنی ذمہ داری محسوس کرکے عمل کا کوئی قدم اٹھاؤ) (آیت) ” سمیع “ وہ تو بڑا سننے والا ہے۔ اس لیے زن وشوہر کے ظاہر قول کو اور شوہروں کی قسموں کو، سب کو سنتا رہتا ہے۔ (آیت) ” علیم “ وہ بڑا جاننے والا ہے، اس لیے زن وشوہر کے دلوں کے اندر کی مخفی باتوں کو جانتا ہے، ان کے ارادوں سے واقف ہے، اور ان کے مناسب حال ہی حکم دیتا ہے۔ آیات کے آخر میں صفات باری کا اثبات محض یوں ہی اٹکل سے نہیں ہوتا۔ ہمیشہ پر معنی اور سیاق کلام کے لحاظ سے بلیغ ہی ہوتا ہے۔ یہاں مقصود زن وشوہر کو، خصوصا شوہروں کو، ان کی ذمہ داریوں پر متنبہ کرنا ہے، اس لیے انہی صفات باری کا لانا موزوں ومناسب ہوا۔
Top