Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 238
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
(سب ہی) نمازوں کی پابندی رکھو۔ اور (خصوصا) درمیانی نماز کی،907 ۔ اور اللہ کے سامنے عاجزوں (کی طرح) کھڑے رہا کرو،908 ۔
907 ۔ اوپر سے ذکر برابر بیویوں کے حقوق ومطالبات کا چلا آرہا تھا اور آگے پھر یہی ذکر چلے گا۔ درمیان میں احکام نماز سے متعلق آگئے۔ یہیں سے اس حقیقت پر ایک بار اور روشنی پڑ رہی ہے کہ اسلام میں معاشرت ومعاملت، قانون واخلاق کے مسائل، عبادات سے الگ نہیں۔ اور نظام شریعت میں خالق کے حقوق اور مخلوق کے حقوق دوش بدوش چل رہے ہیں۔ (آیت) ” حفظوا علی الصلوت “۔ محققین نے محافظت صلوۃ کے تین درجے قرار دیئے ہیں، ادنی یہ کہ نماز وقت پر پڑھی جائے اور فرائض وواجبات ترک نہ کیے جائیں، اوسط یہ کہ جسم ہر طرح طہارت ظاہری سے آراستہ ہو، طبیعت اکل حلال کی خوگر ہو، دل میں خشوع و خضوع ہو، سنن ومستحبات کی پوری رعایت رہے۔ اعلیٰ یہ کہ نماز گویا حق تعالیٰ کے مواجہہ میں ہورہی ہے۔ اس قدر حضور قلب واستغراق رہے۔ (آیت) ” الصلوۃ الوسطی “۔ اس درمیانی نماز سے کیا مراد ہے ؟ اکثر ائمہ تفاسیر نے نماز عصر مراد لی ہے اور یہی معنی ابن جریر میں حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت ابوہریرہ ؓ ، صحابیوں اور قتادہ وضحاک تابعین اور امام ابوحنفیہ (رح) و امام نخعی (رح) سے مروی ہوئے ہیں، لیکن ابن جریر ہی میں دوسرے معنی، نماز ظہر اور نماز مغرب اور نماز فجر کے بھی اسی پایہ کے حضرات سے منقول ہیں۔ بعض نے لفظی پہلو پر زور دے کر یہ تفسیر کی ہے کہ ہر نماز چونکہ اپنی جگہ پر عبادات وحسنات کا درجہ متوسط ہے، اور پھر ہر نماز کے ادھر ادھر کچھ نمازیں بھی ہوتی ہیں، نماز وسطی کا اطلاق ہر نماز پر ہوسکتا ہے، اور اس سے کسی خاص وقت کی نماز مقصود نہیں۔ 908 ۔ (حالت نماز میں) (آیت) ” قنتین “۔ لفظ قنوت بہت جامع ہے اور حاوی ہے ذکر اور دعا اور خشوع و خضوع پر۔ قال ابو محمد ولا اری اصل ھذا الحرف الا الطاعۃ لان جمیع ھذہ الخصال من الصلوۃ والقیام فیھا والدعاء وغیر ذلک یکون عنھا (ابن قتیبہ)
Top