Tafseer-e-Majidi - An-Naml : 27
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ١۪ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
الَّذِیْنَ : جو لوگ يَنْقُضُوْنَ : توڑتے ہیں عَهْدَ اللہِ : اللہ کا وعدہ مِنْ بَعْدِ : سے۔ بعد مِیْثَاقِهِ : پختہ اقرار وَيَقْطَعُوْنَ : اور کاٹتے ہیں مَا۔ اَمَرَ : جس۔ حکم دیا اللّٰهُ : اللہ بِهٖ : اس سے اَنْ يُوْصَلَ : کہ وہ جوڑے رکھیں وَيُفْسِدُوْنَ : اور وہ فساد کرتے ہیں فِي : میں الْاَرْضِ : زمین أُوْلَٰئِکَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخَاسِرُوْنَ : نقصان اٹھانے والے ہیں
جو اللہ سے اپنے معاہدہ کو اس کے استحکام کے بعد توڑتے ہیں94 ۔ اور جس چیز کو اللہ نے حکم دیا تھا جوڑے رکھنے کا اسے کاٹتے ہیں95 ۔ اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں96 ۔ تو بس یہی لوگ ہیں نقصان اٹھانے والے،97 ۔
94 ۔ (آیت) ” عھد اللہ “۔ یعنی معاہدۂ طاعت کو۔ عہد ایمان کو، توحید کے حاسۂ فطری کو، اقرار توحید ربوبیت تو ایسا سیدھا سادہ صاف مسئلہ ہے کہ ہر انسان کی فطرت سلیم اس عقیدہ پر گواہ ہے۔ نافرمان وفاسق خود اپنی اس فطرت سلیم سے، اقرارفطری سے بغاوت کرتا رہتا ہے۔ اور اس لیے یہاں فاسقین کے تحت میں ہر قسم کے اہل کفر آگئے۔ عنی بھذہ الایۃ جمیع اھل الکفر والشرک والنفاق وعہدہ الی جمیعھم فی توحیدہ ما وضع لھم من الادلۃ الدالۃ علی ربوبیتہ (ابن کثیر) (آیت) ” من بعد میثاقہ۔ اس عہد فطرت کی توثیق ہر دور اور ہر زمانہ میں پیغمبروں کی تعلیمات کے ذریعہ سے ہوتی رہی ہے۔ والمرادبہ ما وثق اللہ بہ عہدہ من الایات والکتب (بیضاوی) 95 ۔ آیت کے وسعت مفہوم میں سارے حقوق اللہ اور حقوق العباد داخل ہیں۔ یعنی وہ سارے فرائض جو ہر انسان پر خالق و مخلوق دونوں سے متعلق عائد رہتے ہیں۔ ان یوصل من الایمان والارحام (ابن جریر۔ عن عباس ؓ صلۃ الارحام والقرابات وقیل المراد اعم من ذلک (ابن کثیر) امام رازی (رح) نے ایک معنی یہ بھی کیے ہیں کہ حکم الہی مومنین کے ساتھ رشتہ جوڑے رکھنے کا ہے۔ یہ اہل فسق اسے چھوڑ کر اپنا رشتہ کافروں سے جوڑ لیتے ہیں۔ 96 (اپنے عقائد کفریہ باطلہ سے) اس ” فساد ‘ کے اندر، روحانی، مادی ہر قسم کے مفسدے شامل ہیں۔ اسلام کی حقیقت ہی چونکہ یہ ہے کہ وہ زندگی کا ایک مکمل دستورالعمل ہے اور ایک ہمہ گیر نظام حیات۔ اس لیے اس سے اعراض و انحراف کے کھلے ہوئے معنی یہ ہیں کہ کسی ناقص دستور زندگی اور چھوٹے نصب العین کو قبول کرلیا گیا ہے اور اس ناقص پروگرام کا لازمی نتیجہ ہے انفرادی انتشار اور اجتماعی اختلال۔ والاظھران المرادمنہ الصدعن طاعۃ الرسول (علیہ الصلوۃ والسلام) لان تمام الصلاح فی الارض بالطاعۃ (کبیر) یہ عقیدہ نہیں مشاہدہ ہے کہ آج دنیا اتنی ترقیوں اور علمی کمالات کے باوجود کیسی کیسی مصیبتوں میں بھٹک رہی ہے، انفرادی واجتماعی دونوں حیثیتوں سے۔ اور یہ صلاح و فلاح سے محرومی نتیجہ ہے اسلامی زندگی کو گم کردینے کا۔ 97 ۔ اس نقصان میں خسارہ عاجل بھی شامل ہے اور خسارۂ آجل بھی، عاجل اس لحاظ سے کہ عدم ایمان سے دلوں سے سکون و اطمینان رخصت ہوجاتا۔ اور قوم وافراد قوم طرح طرح کی بداخلاقیوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اور آجل اس اعتبار سے کہ آخرت میں ہر نعمت سے محرومی رہے گی۔ مغبونون بذھاب الدنیا والاخرۃ (ابن عباس ؓ
Top