Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 29
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا١ۗ ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ١ؕ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠   ۧ
ھُوَ : وہی ہے الَّذِىْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا لَكُمْ : واسطے تمہارے مَّا : جو کچھ ہے فِى الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سارے کا سارا / سب کچھ ثُمَّ : پھر اسْتَوٰٓى : وہ متوجہ ہوا / ارادہ کیا اِلَى : طرف السَّمَآءِ : آسمان کے فَسَوّٰىھُنَّ : پس برابر کردیا ان کو / درست بنایا ان کو / ہموار کیا ان کو سَبْعَ : سات سَمٰوٰتٍ : آسمانوں کو وَ : اور ھُوَ : وہ بِكُلِّ : ساتھ ہر شَىْءٍ : چیز کے عَلِيْمٌ : خوب علم والا ہے
وہ وہی (خدا) ہے جس نے پیدا کیا تمہارے لیے جو کچھ بھی زمین میں ہے سب کا سب104 ۔ پھر اس نے آسمان کی طرف توجہ کی،105 ۔ اور انہیں سات آسمان درست کرکے بنادیا،106 ۔ اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے،107 ۔
104 ۔ خطاب عام نوع انسانی سے ہے۔ ان سے ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ تم تو خود ہی ساری کائنات ارضی کے مقصود ومطاع ہو۔ پھر یہ کیسی حماقت ہوگی کہ تم کسی اور مخلوق کو مقصود ومطاع بنالو، آیت ہر قسم کے شرک ، ، ہر قسم کی مخلوق پرستی کی جڑ کاٹ دینے کے لیے کافی ہے۔ اس فرش زمینی پر جو کچھ بھی ہے سب انسان ہی کے لیے ہے، نہ یہ کہ انسان کسی اور مخلوق کے لیے ہو، اور مشرک انسان اس فطری اور قدرتی ترتیب کو الٹ دیتا ہے۔ حدیث نبوی کا یہ ٹکڑا جو مسلمان ہر جمعہ کو خطیب کی زبان سے سنتا ہے کہ، ان الدنیا خلقت لکم وانکم خلقتم للاخرۃ (دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے اور تم پیدا کیے گئے ہو آخرت کے لیے) اسی مفہوم کا ترجمان ہے۔ اور خلیفۃ اللہ کی بیشک یہی شان ہونا چاہیے ، ، سب کچھ اس کے لیے ہو اور وہ خود خدا کے لیے ہو۔ وہ جس چیز کو جس طرح بھی چاہے اپنے تصرف میں لائے۔ اور اس کا جواب دہ صرف اپنے مالک و خالق کے سامنے ہو۔ مرتبہ انسانی کا یہ شرف واحترام اسلام ہی کا قائم کیا ہوا ہے۔ ڈارون کے ” ترقی یافتہ بندر “ غریب کو اس رتبہ ومقام سے کیا واسطہ ! لکم اے لا جلکم ولا نتفاعکم بہ فی دنیا کم ودینکم (کشاف) ھو یدل علی ان المذکور بعد قولہ خلق لاجل انتفاعنا فی الدین والدنیا (کبیر) (آیت) ” جمیعا “ اس ”’ سب “ میں گنگا مائی بھی شامل ہیں اور ننگا پر بت بھی، گؤماتا بھی اور ہنومان جی بھی، حجر پرستی ، ، شجر پرستی، دریا پرستی، کوہ پرستی، ناگ پوجا وغیرہ مخلوق پرستی اور مظاہر پرستی کی جتنی بھی صورتیں ہیں سب بےمعنی اور ننگ انسانیت ہیں۔ 105 ۔ سماء واحد اور جمع دونوں طرح آتا ہے۔ یستعمل للواحد والجمع (راغب) یہ قول بھی نقل ہوا ہے کہ یہاں لفظ واحد ہے لیکن معنی جمع ہے کہ جنس سماء کے معنی میں ہے فانھا فی معنی الجنس (ابوسعود) بہرصورت ضمیر جمع (آیت) ” ھن “ سے کوئی خلجان نہ ہونا چاہئے۔ سماء کی وسعت مفہوم پر حاشیہ پہلے گزر چکا ہے۔ (65) یہاں مراد اجرام علوی سے بھی لی گئی ہے اور سمت علوی سے بھی۔ المراد بالسماء ھذہ الاجرام العلویۃ اوجھات العلو (بیضاوی) گویا مفہوم یہ ہوا کہ وہ بلندی کی طرف متوجہ ہوا۔ والمراد بالسماء جھات العلوکانہ قیل ثم استوی الی فوق (کشاف) استوی کا صلہ جب الی کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں قصد کیا، توجہ کی، التفات کیا۔ چناچہ یہاں ائمہ تفسیر عموما اسی طرف گئے ہیں، عمد الی خلق السماء (ابن عباس ؓ قال بعضھم اقبل علیھا وقال بعضھم عمدالیھا (ابن جریر) قصد الیھا اے بخلقہ واختراعہ (قربطی۔ عن سفیان وابن کیسان) اقبل وعمدالی خلق السموت (مدارک) 106 ۔ آسمانوں کا تعداد میں سات ہونا توریت وانجیل دونوں کو مسلم ہے۔ ہیسٹنگز کی ڈکشنری آف دی بائبل میں ہے۔ ” عہد عتیق وعہد جدید دونوں میں آسمانوں کا جو تخیل ہے۔۔۔ وہ سات آسمانوں کا ہے “ (جلد 2 صفحۃ 322) (آیت) ” سواھن “ تسویہ کے معنی ہیں تکمیل تک پہنچا دینے اور ہر طرح درست کردینے کے ضمیر۔ (آیت) ” ھن السماء “ کی طرف راجع ہے۔ خواہ اس کی تفسیر اجرام سے کی جائے یا خود اس کو معنی جمع قرار دیا جائے (بیضاوی) ومعنی تسویتھن تعدیل خلقھن واخلاؤہ من العوج والقطور واتمام خلقھن (کبیر) اس لیے (آیت) ” مسواھن “ کا ترجمہ ٹھیٹھ اردو میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” انہیں ٹھیک ٹھاک کردیا “ (آیت) ” سبع سموت “ قدیم اہل ہیئت نے سات آسمانوں سے مراد سات مشہور سیاروں کے مدارلیے ہیں۔ یعنی کرۂ قمر، کرۂ عطارد، کرۂ زہرہ، کرۂ شمس، کرۂ مریخ، کرۂ مشتری، کرۂ زحل (کبیر) صاحب تفسیر مظہری نے ایک حدیث سے استنباط کرکے لکھا ہے کہ عرش اور اس کے اندر جتنے سماوات ہیں سب کروی ہیں اور عرش زمین کے اطراف کو محیط ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ ہر کو کب اپنے فلک میں ایک خاص چال سے چلتا ہے اور آسمان کو حرکت نہیں۔ 107 ۔ (چنانچہ اپنے بندوں کی ساری ضرورتوں کا بھی اسے پورا علم ہے، اور اس نے اپنے بندوں کو محض پیدا ہی نہیں کیا، بلکہ از راہ بندہ پروری اس نے ان کی ہر ضرورت کے پورا کرنے کا بھی سامان کردیا) صفت خلق کے بعد صفت علم کا اثبات بھی ضروری تھا۔ جاہلی قوموں نے کثرت سے اپنے دیوی دیوتاؤں کو ان کے معبود تسلیم کرلینے کے باوجود ان کے علم کو ناقص مانا ہے۔
Top