Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں8 ۔ اور نماز کی پابندی کرتے ہیں9 ۔ اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں10 ۔
8 (رسول ﷺ کی تعلیمات و تصریحات کے مطابق نہ کہ اپنے ظن وتخمین، وہم و گمان سے) یؤمنون۔ ایمانیات کے دائرہ کے اندر کی جتنی چیزیں بھی ہیں سب کو تصریحات نبوی کے مطابق وماتحت ہونا ضروری ہے۔ کسی اور راہ سے آیا ہو اعلم اس دائرہ میں نامقبول ہے۔ ایمان کی کیفیت نفسی شک، ریب ترددوتذبذب کی بالکل ضد ہے۔ ایمان سے اس کے برعکس دماغ کو سکون، دل کو اطمینان، روح کو تسلی نصیب ہوتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں آج تک کسی صاحب ایمان کو خود کشی کرتے نہیں پایا گیا۔ ایمان کے بغیر دل میں بےکلی اور بےچینی ہی رہا کرتی ہے۔ لیکن ایمان والے کو سخت سے سخت مصیبت کے وقت بھی ڈھارس بندھی رہتی ہے کہ وہ بڑا سہارا اور مضبوط آسرارکھتا ہے۔ بالغیب یعنی ایمان ایسے عالم پر رکھتے ہیں جو محسوسات اور معقولات سے ماوراء ہے۔ اور جس کی بابت خبریں صرف نبی کے ذریعہ سے معلوم ہوسکتی ہیں۔ غیب لغت میں شہود کی ضد ہے۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو نظر سے نظر سے چھپی ہوئی ہو یا مشاہدہ تجربہ سے باہر ہو۔ الغیب کل ما غحاب عنک (لسان) استعمل فی کل غائب عن الحاسۃ (راغب) یہ لغوی تشریح تھی۔ آیت میں الغیب سے مراد ائمہ تفسیر نے وہ عالم لیا ہے، جو حواس وعقل سے ماوراء ہے، اور جس کی بابت جو کچھ بھی علم ہوتا ہے وہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے توسط سے، مثلا احوال حشرونشر، حورو ملائک، جنت و دوزخ وغیرھا۔ اور یہ تفسیر خود جماعت صحابہ ؓ سے مروی ہے۔ اما الغیب فما غاب عن العباد من امر الجنۃ وامر النار ما ذکر اللہ تعالیٰ وتبارک فی القرآن (ابن جریر۔ عن ابن مسعود ون اس من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وھو قول جمھور المفسرین ان الغیب ھو الذی یکون غائبا عن الحاسۃ (کبیر) غیب کی تفسیر منقول اسی قدر ہے۔ لیکن اسے ذرا سی وسعت دینے سے اس کے اندر پیمبر کے سارے علوم داخل ہوجاتے ہیں۔ اور پیمبر جن جن امور سے وحی جلی یا وحی خفی کی روشنی میں لوگوں کو روکتا ہے، ان کی باریک باریک برائیوں کا امت کے نقطہ نظر سے داخل غیب ہونا صاف معلوم ہوجاتا ہے وحی الہی کی خوردبین سود، شراب، زناوغیرہ کی خرابیوں اور مفسدوں کی جس طرح اپنی گرفت میں لے آتی ہے، وہ انسان کے لیے غیب ہی کا حکم رکھتی ہے۔ لیکن جب غیب کی حقیقت یہ معلوم ہوگئی کہ وہ شہود یا علم کے مقابلہ کی چیز ہے تو ظاہر ہے کہ جس طرح ہر شخص کا علم ومشاہدہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اسی نسبت سے ہر ایک کا غیب بھی دوسرے سے جدا گانہ ہوتا ہے۔ طبیب کے لیے مرض ومریض سے متعلق بہت سے امور شہود میں ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے غیب کے حکم میں داخل ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر فن کا ماہر ایسی چیزیں جانتا ہے جو عامی کے لیے غیب یا خفا میں ہوتی ہیں۔ گویا جس شخص کا دائرہ علم جس قدر وسیع ہوگا، اسی نسبت سے اس کا دائرہ غیب چھوٹا ہوگا۔ یہاں تک کہ حق تعالیٰ پر چونکہ ہر چیز روشن وعیاں ہے، اس لیے کوئی شے اس کے لیے غیب میں داخل ہی نہیں۔ اور اس لیے اسے لیے اسے جب عالم الغیب کہا جاتا ہے تو اس کے معنی صرف یہ ہوتے ہیں کہ وہ ان چیزوں کو بھی جانتا ہے، جو سب بندوں کے لیے غیب میں ہوتی ہیں۔ ” غیب “ کی اضافت یہاں صرف بندوں کی جانب ہوتی ہے، ورنہ حق تعالیٰ کے لیے تو جس طرح دور ونزدیک، آسان و دشوار، بڑا اور چھوٹا سب یکساں ہیں، اور ان کے باہمی فرق بےمعنی ہیں، اسی طرح غیب وشہود بھی بالکل ایک ہیں، ویقال للشئی غیب و غائب باعتبارہ بالناس لا باللہ تعالیٰ فانہ لا یغیب عنہ شیء (راغب) یہیں سے یہ بھی ظاہر ہے کہ پیمبر چونکہ تمام دوسرے انسانوں سے دانا ترو عالم ترہوتے ہیں اور ان کا دائرہ ادراک ومعرفت ساری دوسری مخلوق سے وسیع تر ہوتا ہے اس لیے قدرۃ انہیں بیشمار ایسی مخفیات کا علم ہوتا ہے جو غیر انبیاء کے لیے تمام تر مجہول ہوتی ہیں لیکن اس ساری وسعت کے باوجود کہیں نہ کہیں کسی منزل پر پہنچ کر ان کے علم کی بھی انتہا ہوجاتی ہے۔ اور دائرہ غیب ان کا بھی شروع ہوجاتا ہے۔ غیب پر ایمان لانا تو آیت میں متقین کی سب سے پہلی علامت بیان کیا گیا ہے۔ اب اگر خدانخواستہ کسی کا غیب ہے ہی نہیں، تو وہ ایمان کس چیز پر لائے گا ؟ ا نبی اء کرام تو متقی ہی نہیں، متقیوں کے سردار و پیشوا ہوتے ہیں۔ ان کا ایمان بھی اگر مغیبات ومخفیات پر نہ ہوگا تو اور کس کا ہوگا ؟ ہاں البتہ ان کا غیب، انہیں کے ظرف و مرتبہ و بساط کے موافق ہوتا ہے۔ ہمہ شماکا سا غیب ان کا نہیں۔ دین کا مغز کہیے یا ایمان کی روح یہی عالم غیب کا عقیدہ ہے۔ یعنی یہ اعتقاد کہ اس عالم مادی سے ماوراء اس کائنات حسی سے اوپر، کچھ اور، ایک عالم ہے ضرور۔ اور جو اس عالم کے وجود کا قائل نہیں وہ سرے سے مذہب ہی کا قائل نہیں۔ اور سب سے بڑا غیب تو خود وجود باری ہے سب سے بڑھ کر روشن وعیاں، مگر سب سے زیادہ مخفی ونہاں۔ بڑے سے بڑے عالم وعارف کے لیے بھی اس کے مرتبہ علم ومعرفت کے بعد پھر غیب کے حدود شروع ہوتے ہیں۔ 9 (وقت کے، خشوع کے، تعدیل ارکان کے، غرض جملہ لوازم باطنی و شرائط ظاہری کے ساتھ) صلوۃ کے لفظی معنی دعا کے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں ایک مخصوص ہیئت کی معروف عبادت کا نام ہے۔ اور یہ نام بھی اسی سے پڑا کہ دعا ہی اس عبادت کا جزواعظم ہے۔ الصلوۃ التیھی العبادۃ المخصوصۃ اصلھا الدعاء (راغب) محققین نے کہا ہے کہ نماز تو یکسر دعا ہے۔ دعازبان سے بھی، اعضائے ظاہری سے بھی۔ یعنی دعاء قولی، دعاء قلبی، دعاء فعلی کا مجموعہ۔ اقامت صلوۃ اور محض ادائے صلوۃ میں فرق ہے۔ اقامت صلوۃ کی تعبیریں مداومت سے، تعدیل ارکان سے، اور مختلف طریقوں سے کی گئی ہیں (ابن جریر۔ کبیر وغیرہ) سب سے زیادہ جامع تشریع یقیمون الصلوۃ کی صاحب جلالین نے اپنے دو مختصر لفظوں میں کردی اے یاتون بھا بحقوقھا۔ ان دیکھے خدا کے آگے جھکنے، سرعبودیت خم کرنے، اس سے گہرا ربط وتعلق پیدا کرنے، اور خود افراد امت میں باہم نظم پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔ اور بدنی عبادتوں میں یہی فریضہ سب سے اعلی اور ایمان، توحید کا سب سے بڑا عملی مظہر ہے۔ فرد کے لیے اسلامی نماز باجماعت کے جو اخلاقی، طبعی، مادی فائدے ہیں، نیز ملت کے لیے جو معاشری اجتماعی مصلحتیں ہیں ان کی جھلک کہیں دور سے دیکھکر، یہود، مسیحی اور منکرین تک اس کے دلدادہ ہوگئے ہیں۔ اور ان کے اہل علم اپنی تحریروں میں بار بار اس داد ومدح کے لہجہ میں کرچکے ہیں، ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ متقین کی پہلی علامت یہ ارشاد ہوئی ہے کہ وہ عقیدۂ غیب کے قائل ہیں۔ دوسری علامت یہ بیان ہورہی ہے کہ عملی زندگی میں وہ نماز کے پابند ہیں۔ 10 (مناسب وضروری موقعوں پر، جائز اور مفید کاموں میں) رزق کا لفظ کلام عرب میں بڑے وسیع معنی رکھتا ہے۔ اس کے اندر ہر قسم کی نعمتیں آجاتی ہیں، خواہ ظاہری ومادی ہوں، مثلا مال وصحت، اولاد۔ یا معنوی وروحانی ہوں۔ مثلاعلم و حکمت، جاتی ہیں، خواہ ظاہری ومادی ہوں، مثلا مال وصحت، اولاد، یا معنوی وروحانی ہوں، مثلاعلم و حکمت، جاتی ہیں، خواہ ظاہری ومادی ہوں، مثلا مال وصحت، اولاد۔ یا معنوی وروحانی ہوں۔ مثلاعلم و حکمت، فہم سلیم وغیرہ۔ یقال للعطاء الجاری تارۃ دنیویا کان ام اخرویا وللنصیب تارۃ (راغب) الرزق فی کلام العرب ھو الحظ (کبیر) اسم لکل ماینتفع بہ (معالم) رزقنہم میں ہر رزق کو اپنی جانب منسوب کرکے بتا دیا کہ جو نعمت، جتنی اور جس قسم کی بھی انسان کو ملتی ہے، سب اللہ ہی کے فیض وعطا کا ثمرہ ہوتی ہے۔ انسان کی اپنی کوئی چیز بھی نہیں ہوتی۔ ینفقون۔ متقین کی تیسری صفت یہ ارشاد ہوئی کہ اللہ کے ہاں سے انہیں جو بھی ظاہری ومعنوی نعمتیں عطاہوئی ہیں، انہیں وہ اللہ ہی کے دین پر، حق کی راہ میں صرف کرتے ہیں۔ اللہ کی مخالفت، عدوان وعصیان میں صرف نہیں کرتے۔ مرشد تھانوی مدظلہ نے فرمایا کہ اس عموم میں یہ بھی داخل ہے کہ ہم نے انہیں جو انوار معرفت عطا کیے ہیں ان کا وہ طالبین پر افاضہ کرتے رہتے ہیں۔
Top