Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِکَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّا : سوائے اِبْلِیْسَ : ابلیس اَبٰى : اس نے انکار کیا وَ اسْتَكْبَرَ : اور تکبر کیا وَکَانَ : اور ہوگیا مِنَ الْکَافِرِیْنَ : کافروں سے
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا124 ۔ کہ آدم (علیہ السلام) کے آگے جھکو،125 ۔ تو (وہ سب) جھکے مگر ابلیس (نہ جھکا)126 ۔ اس نے انکار کیا اور تکبر میں آگیا127 ۔ اور کافروں میں سے ہوگیا۔128 ۔
124 ۔ یہاں صراحت صرف فرشتوں کی ہے۔ لیکن جب یہ حکم فرشتوں کو مل رہا تھا تو جنات وغیرہ جو نسبۃ ادنی مخلوق تھے، وہ اس حکم کے مخاطب بدرجہ اولی ٹھہرے۔ بادشاہ کا حکم وزیر یا نائب السلطنت کو ملتا ہے تو ادنی عہدہ دار بدرجہ اولی اس کے مخاطب ہوتے ہیں۔ 125 ۔ (بہ طور اظہار عجز ونیاز، بہ حیثیت علامت تسلیم واطاعات) (آیت) ” اسجدوا۔ سجدہ سے مراد سجدہ اصطلاحی و سجدہ نماز نہیں، مطلق سجدہ مراد ہے۔ سجود اور سجدہ کے لفظی معنی محض تواضع وتذلل کے ہیں۔ سجدای خضع التطامن والتذلل (راغب) سجدۂ نماز کو بھی سجدہ اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ تذلل و تواضع کا بہترین مظہر ہے۔ ویکون السجود علی جھۃ الخضوع والتواضع (لسان) خود محاورۂ قرآن میں سجود کا استعمال اس عام معنی میں عام ہے۔ مثلا (آیت) ” الم تران اللہ یسجدلہ من فی السموت ومن فی الارض “ (اے مخاطب کیا تو نہیں دیکھتا کہ آسمان و زمین میں جو بھی مخلوق ہے، سب اللہ کے آگے جھکی ہوئی ہے) اور یہاں بھی قول اصح یہی ہے کہ یہ سجدہ اپنی ہیئت معروف کے ساتھ زمین پر پیشانی رکھنے کے معنی میں تھا ہی نہیں بلکہ صرف جھکنے کے معنی میں تھا۔ کان ذلک انحناء ولم یکن خرورا علی الذقن (مدارک۔ عن ابن عباس ؓ قیل المعنی اللغوی ولم یکن فیہ وضع الجباہ بل کان مجرد تذلل وانقیاد (روح) قال قوم لم یکن ھذا السجود المعتاد الیوم ولکنہ یبقی علی اصل اللغۃ فھو من التذلل والانقیاد (قرطبی) قیل امروا بالتذلل لہ والقیام بمصالحہ ومصالح اولادہ (راغب) لیکن جن لوگوں نے اسے سجدۂ متعارف کے معنی میں لیا ہے، انہوں نے بھی تصریح کردی ہے کہ یہ سجدہ تعظیمی تھا جو اگلی شریعتوں میں جائز تھا۔ سجدۂ عبادت ہرگز نہ تھا۔ تکرمۃ لادم لاعبادۃ لادم (ابن جریر) کان ذلک سجود تعظیم وتحیۃ لا سجود عبادۃ (معالم) کان السجود تحیۃ الادم (مدارک) اور سب سے بڑی بات یہ کہ یہ واقعہ عالم ارواح کا ہے، عالم ناسوت کا ہے ہی نہیں، اور تکلیفات شرعیہ کا تعلق اسی عالم ناسوت سے ہے۔ لادم۔ یعنی خلیفۃ اللہ کے آگے۔ نائب سلطان حقیقی کی طرف رخ کرکے، نہ یہ کہ اس کو۔ ل یہاں الی کا مرادف ہے۔ یعنی سمت اور طرف کے معنی میں ہے۔ سجدہ صرف سمت آدم میں تھا جیسے آج بھی سمت کعبہ میں ہوتا ہے۔ مسجود جس طرح آج بھی کعبہ نہیں، رب کعبہ ہے۔ اسی طرح اس وقت بھی ذات باری ہی تھی۔ قرآن مجید ہی کی ایک اور آیت میں ل عند کے معنی میں آیا ہے (آیت) ” اقم الصلوۃ لدلوک الشمس “ نصبہ اللہ قبلۃ لسجودھم کالکعبۃ (بحر۔ عن الشعبی) اے الی ادم فکان ادم قبلۃ والسجود للہ تعالیٰ ۔ (معالم) اے اسجدوا الی مستقبلین وجہ ادم (قرطبی) 126 (آیت) ” ابلیس “۔ لفظی معنی میں یاس زدہ کے۔ قرآن مجید میں مصدر ابلاس مختلف موقعوں پر اسی مفہوم میں آیا ہے۔ (آیت) ” یبلس المجرمون۔ فاذا ھم مبلسون “۔ وغیرہا۔ (آیت) ” (آیت) ” ابلیس “ اسی سے مشتق ہے۔ اور یہاں بطور علم کے شیطان کے لیے آیا ہے۔ الابلاس الحزن المعترض من شدۃ ایاس منہ اشتق ابلیس (راغب) ابلیس افعیل من الابلاس وھو الایاس من الخیر والندم والحزن (ابن جریر) یہ ابلیس کوئی فرشتہ نہ تھا، جیسا کہ یہود ونصاری کے تتبع میں ایک عام خیال پھیل گیا ہے۔ بلکہ جنی تھا جیسا کہ قرآن مجید میں مصرح ہے۔ (آیت) ” کان من الجن “ (کہف۔ آیت 50) نور کا بنا ہوا فرشتہ نہیں جو نافرمانی پر قادر ہی نہیں، بلکہ آگ کا بنا ہوا جن تھا۔ (آیت) ” خلقتنی من نار “ (اعراف۔ آیت 12) ان صریح نصوص کے مقابلہ میں قول کسی کا بھی ہو قابل اعتنا نہیں۔ 127 ۔ (آیت) ” ابی “۔ انکار کیا حکم کی تعمیل سے (آیت) ” واستکبر “ اس نے صاف کردیا کہ تعمیل ارشاد سے انکار کسی اشتباہ یا غلط فہمی کی بنا پر نہیں، محض پندار تفوق کی بنا پر تھا۔ انکار اس نے اپنی بڑائی کی راہ سے کیا۔128 ۔ یعنی اس نافرمانی نے اسے کافروں میں داخل کردیا یہ معنی نہیں کہ وہ پہلے سے کافروں میں تھا ہی۔ اے صارمن الکفرین (ابن عباس ؓ صار من الکفرین باباۂ واستکبارہ (مدارک) ومن اقسام کان الناقصۃ ان تاتی بمعنی صار کقولہ تعالیٰ (آیت) ” کان من الکفرین “ (تاج) جن اہل تفسیر نے (آیت) ” کان “ کو ” ہوگیا “ کے بجائے ” تھا “ کے معنی میں لیا ہے، انہوں نے فی علم اللہ (اللہ کے علم میں) محذوف مانا ہے۔ ابلیس پر کفر کا اطلاق حکم کے ردوانکار کی بنا پر ہوا، محض ترک عمل (سجدہ) کی بنا پر نہیں، ترک عمل گو گناہ کیسا ہی ہو ایمان سے خارج کردینے اور کفر تک پہنچا دینے کے لیے اہل سنت کے مذہب میں کافی نہیں (مدارک)
Top