Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 38
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا١ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
قُلْنَا : ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ مِنْهَا : یہاں سے جَمِیْعًا : سب فَاِمَّا : پس جب يَأْتِيَنَّكُمْ : تمہیں پہنچے مِنِّیْ : میری طرف سے هُدًى : کوئی ہدایت فَمَنْ تَبِعَ : سو جو چلا هُدَايَ : میری ہدایت فَلَا : تو نہ خَوۡفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
(اور) ہم نے حکم دیا کہ تم سب اس سے نیچے اتر جاؤ141 ۔ پھر اگر تمہیں میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے،142 ۔ تو جو جو کوئی پیروی میری ہدایت کی کرے گا سو ان کے لیے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہی ہوں گے،143 ۔
141 ۔ (اے اولاد آدم) (آیت) ” اھبطوا۔ جمیعا “ مراد ذریت آدم (علیہ السلام) ہے۔ والمراد الذریۃ (ابن کثیر) (آیت) ” عنھا “ میں ضمیر جنت کی طرف ہے۔ یعنی جنت سے نیچے اترو۔ یہ حکم بہ طور سزا و عتاب نہیں مل رہا ہے، اس لیے کہ خطا تو اب معاف ہی ہوچکی ہے۔ بلکہ یہ محض نتیجہ طبیعی کا ظہور ہے۔ شجر ممنوع کا پھل کھا لینے سے جو طبعی اثرات مرتب ہورہے تھے، ان کے لحاظ سے اب جنت میں قیام کی گنجائش نہ تھی۔ روح کے داغ دھل جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جسم و مادہ سے بھی غلط کاری کے نقش مٹ جائیں۔ کوئی شخص خود کشی کے ارادہ سے اگر زہر کھالے، اور معا اسے اپنی عصیان کاری پر تنبہ ہوجائے، اور وہ روئے، گڑگڑائے، دل سے توبہ کرے، اس سے گناہ تو عجب نہیں کہ معاف ہوجائے لیکن زہر کے طبیعی اثرات جو نظام جسم پر مرتب ہوتے ہیں وہ تو بہر حال ہو کر رہیں گے۔ خشوع، خضوع، انابت قلب ان مادی اثرات کو مٹانے کے لیے کافی نہیں۔ 142 ۔ (اور وہ یقیناً پہنچے گی، پیغمبروں یا ان کے نائبوں کے ذریعہ سے) اس ناسوتی دنیا میں رہنے سہنے کا قانون بتایا جارہا ہے۔ 143 (روز جزا میں) (آیت) ” ھدای “ جو پیام ہدایت رسولوں کے ذریعہ سے آتا ہے اسے براہ راست حق تعالیٰ کی جانب بھی منسوب کیا جاسکتا ہے۔ (آیت) ” لا خوف علیہم “ ان کے اوپر کوئی خوفناک واقعہ پیش نہ آئے گا، یعنی ان کے لیے فی نفسہ کوئی بات خطرہ یا تشویش کی نہیں، یہ مطلب نہیں کہ صالحین طبعی طور پر بھی اپنے انجام کی طرف سے اندیشہ نہ کریں گے۔ یہ فکر واندیشہ تو صالحین کو دوسروں سے کہیں زیادہ لگا رہتا ہے۔ خوف کا تعلق مستقبل سے ہے۔ اور حزن کا تعلق ماضی سے۔ مطلب یہ ہوا کہ حشر میں مومنین صالحین کو نہ کوئی سزا پیش آنے والی ہے اور نہ وہ لوگ اپنی ناسوتی زندگی پر حسرت وتاسف کریں گے۔ من۔ من موصولہ کا استعمال واحدجمع دونوں کے لیے آتا ہے۔ ضمیمہ : روزہ (متعلق حاشیہ نمبر 143 سورة البقرۃ) آپ کو معلوم ہے کہ اطبائے یونانی کتنے متعدد امراض میں فاقہ کو مفید بتاتے ہیں ؟ آپ کو خبر ہے کہ ڈاکٹروں کے اصول سے اب فاقہ کتنے امراض کا علاج ہے ؟ آپ واقف ہیں کہ ہر طریقہ علاج کے ماہرین فن نے کتنی شدید اور مہلک بیماریوں کا علاج اپنے تجربہ میں فاقہ ہی کو پایا ہے ؟ خود آپ کا ذاتی تجربہ کیا ہے ؟ آپ کو جب کبھی بیماری میں طبیب یا ڈاکٹر فاقہ کا مشورہ دیتے ہیں تو آپ کیسی خاموشی کے ساتھ بےچوں وچرا اور بغیر بحث ومناظرہ اس کے حکم کے آگے گردن جھکا دیتے ہیں اور اس کی ہدایتوں کے مطابق کھانے اور پینے کی لذتوں سے دستبردار ہوجاتے ہیں ! لیکن جب اس سے کم تکلیف اور اس سے ہزاروں گنی زاید راحتوں اور نعمتوں کے وعدہ کے ساتھ اس قسم کی احتیاط خوردونوش کا حکم، آپ کو سب سے بڑے حکیم کے مطب سے ملتا ہے، تو یہ کیا ہے کہ آپ اس خوش دلی کے ساتھ اس کی تعمیل پر آمادہ نہیں ہوجاتے بلکہ طرح طرح کی تاویلوں سے جن سے اکثر خود آپ کا دل بھی مطمئن نہیں ہوتا اسے ٹال جانا چاہتے ہیں ! آپ کہتے ہیں کہ آپ خدا کے فضل سے روزہ دار ہیں اور ماہ رمضان کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں لیکن پھر یہ کیا ہے کہ آپ کی اندرونی زندگی میں کوئی نمایاں فرق نہیں محسوس ہوتا، غصہ اب بھی آپ کو برابر آتا رہتا ہے بلکہ شاید کچھ اور بڑھ ہی گیا ہے۔ دوسروں کے عیب چینی میں اب آپ کو ویسا ہی مزہ آرہا ہے۔ نفسانی خواہشوں اور لڑنے جھگڑنے کے منصوبوں میں اب بھی کوئی کمی نہیں معلوم ہوتی۔ دن میں بےشبہ آپ کھاتے پیتے نہیں ہیں لیکن وقت کا بڑا حصہ بجائے عبادتوں کے، سونے اور بیکاری میں گزارتے ہیں، یا پھر سحری، طعام شب اور افطار پارٹیوں کے اہتمام وانتظام میں ! وہ وہ لذیذ اور ثقیل غذائیں جن سے آپ کا ذائقہ، سال میں گیارہ مہینے بالکل نامانوس رہتا ہے، آپ صرف اسی ماہ صبر وتقوی کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، اور وقت اور روپے کا اچھا خاصا حصہ اسی ماہ مبارک کی دعوتوں اور ضیافتوں میں صرف فرماتے رہتے ہیں ! کیا اسی روزہ داری پر آپ خوش ہیں ؟ کیا اسی کا نام آپ کے خیال میں ماہ مبارک کا احترام ہے ؟ ایک شخص قند اور دودھ کا نفیس شربت تیار کرتا ہے، مگر اس میں کچھ مکھیاں بھی پیس کر ملا دیتا ہے، آپ ایسے شخص کی صحت دماغی کی بابت کیا رائے قائم کریں گے ؟ ایک شخص لذیذ سے لذیذ اور بہتر سے بہتر کھانا خوان میں لگا کر لاتا ہے لیکن اس میں ایک جزوغلاظت کا بھی ملا دیتا ہے، آپ اس بدنصیب کی عقل وفہم پر ماتم کرنے کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں ؟ یقین فرمائیے کہ اس سے کہیں زائد موجب تاسف ومستحق ماتم اس بےعقل وبد نصیب کی حالت ہے جو روزہ رکھ کر بھی غصہ کر کر کے عیب چینی میں مصروف رہ رہ کے، نفسانی خواہشوں کے منصوبوں میں مبتلا رہ رہ کے، روزہ کی نعمتوں اور راحتوں، لذتوں اور فرحتوں کو اپنے ہاتھوں غارت کرتارہتا ہے ! اور جو حرماں نصیب سرے سے روزہ ہی کو ترک کیے ہوئے ہیں، ان بیچاروں کو تو بس اللہ ہی سیدھی سمجھ اور نیک ہدایت کی توفیق نصیب کرے ! (” سچ “ لکھنو 12 ۔ مارچ 1927 ء۔ )
Top