Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 46
الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۠   ۧ
الَّذِیْنَ : وہ جو يَظُنُّوْنَ : یقین رکھتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ مُلَاقُوْ : رو برو ہونے والے رَبِّهِمْ : اپنے رب کے وَاَنَّهُمْ : اور یہ کہ وہ اِلَيْهِ : اس کی طرف رَاجِعُوْنَ : لوٹنے والے
جنہیں اس کا خیال رہتا ہے کہ انہیں اپنے پروردگار سے ملنا (بھی) ہے اور اس کا کہ انہیں اس کی طرف واپس ہونا ہے۔160 ۔
160 ۔ (آیت) ” انھا “ ضمیر نماز کی طرف ہے۔ نماز کا حکم ابھی ابھی ملا ہے۔ اب بیان ان طریقوں کا ہورہا ہے، جن سے نماز آسان ہوجائے اور نماز کی پابندی میں سہولتیں پیدا ہوجائیں۔ خاشعین، خشوع کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے۔ اب یہاں آیت میں خشوع قلب کے دو خاص اثرات کا بیان ہورہا ہے۔ پہلا اثر یہ ہے کہ خاشعین کو اس کا دھیان لگا رہتا ہے کہ یہ عبادتیں رائگاں جانے والی نہیں۔ اپنے شفیق وکریم پروردگار کے حضور میں بہرحال حاضر ہونا ہے۔ اس وقت یہ ساری محنت وصول ہوجائے گی، اور استحقاق سے کہیں بڑھ کر اجر ملے گا، شوق نماز اس مراقبہ سے پیدا ہوجانا یقینی ہے۔ دوسرا اثر خشوع قلب کا یہ ہے کہ خاشعین کے دل میں یہ بات جم جاتی ہے کہ آخر تو واپسی مالک حقیقی کے روبرو ہوگی۔ حساب ہر ہر عمل اور ترک عمل کا ہوگا۔ ترک نماز کی عادت اس سے خود بخود ترک ہوجائے گی۔ عمل میں ساری سہولتیں یقین ہی کی مضبوطی اور قوت سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور یقین کے ایجابی وسلبی دونوں پہلو یہاں بیان میں آگئے۔ نفسیات جدید میں حرک عمل دو ہی چیزیں مانی گئی ہیں۔ ترغیب وترہیب۔۔ ترغیب کا جزو (آیت) ” انھم ملقوا ربھم “ میں جزاواجر کے استحضار سے آگیا۔ اور ترہیب کا جزو ” انھم الیہ رجعون “ میں مراقبہ مؤاخذہ سے آگیا۔ یظنون۔ ظن، لغت میں شک اور یقین دونوں کے معنی میں آیا ہے۔ العرب تسمی الیقین ظنا والئسک ظنا (ابن جریر) الظن من الاضداد یکون شکاو یقیناً (معالم) اور کلام عرب میں ظن بہ معنی یقین کے استعمال کے نظائر بےانتہا ہیں۔ والشواھد من اشعار العرب وکلامھا علی ان الظن فی معنی الیقین اکثر من ان تحصی (ابن جریر) الظن بمعنی الیقین اوالترجیح مشھور عن العرب (نہر) یہاں اکثر ائمہ تفسیر نے یقین ہی کے معنی میں لیا ہے۔ اے یعلمون ویستیقنون (ابن جریر، عن ابن عباس ؓ الظن ھھنا الیقین (ابن جریر۔ عن ابی العالیہ) اے یستیقنون (معالم) وروی عن مجاھد والسدی والربیع بن انس وقتادہ نحوقول ابی العالیۃ (ابن کثیر) معناہ یوقنون (بحر) بعض نے یہاں بھی مراد توقع وامید سے لی ہے۔ اور اس قدر بھی کافی ہے۔ یظنون اے یتوقعون (کشاف)
Top