Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 47
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِیْ : اے اولاد اِسْرَائِیْلَ : یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّیْ : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی میں نے عَلَى الْعَالَمِیْنَ : زمانہ والوں پر
اے بنی اسرائیل میرا وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیا16 1 ۔ اور تمہیں دنیا جہان والوں پر فضیلت دی،162 ۔
16 1 ۔ ملاحظہ ہوں حواشی نمبر 146، نمبر 162 ۔ 162 ۔ خوب خیال رہے کہ یہاں ذکر مذہب یہود کا نہیں ایک مخصوص قوم ونسل کا ہے۔ بنی اسرائیل نام کسی مذہب یا فرقہ یا عقیدہ کا نہیں، ایک خاص نسل کا ہے۔ افضیلت یہاں مذہب یہودیت کی نہیں نسل اسرائیل کی بیان ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نسل کی افضیلت سارے عالم پر، کس معنی میں ارشاد ہورہی ہے ؟ اور وہ کونسی ایسی نعمت تھی جو بہ حیثیت نسل بنی اسرائیل کے ساتھ بلاشرکت غیرے ، ، مدتوں مخصوص رہی ؟ اگر کہیے کہ دولت یا حکومت یا تجارت یا کثرت آبادی۔ تو اول تو یہ انعامات اللہ کے خود اس درجہ کے نہیں کہ ان کا ذکر اس شان واہتمام کے ساتھ کیا جائے، اور انہیں کو معیار فضیلت وافضیلت بنایا جائے۔ اور پھر یہ نعمتیں تو بہت سی قوموں کو اپنے اپنے وقت میں نصیب رہ چکی ہیں۔ کلدانیہ، مصر، ہندوستان، ان سب ملکوں کا تمدن اپنے زمانہ میں، اسرائیلوں سے قبل عروج پر رہ چکا ہے۔ اور تاریخ کا بیان ہے کہ ان قوموں کا دنیوی جاہ وحشم اسرائیلیوں سے کچھ بڑھ ہی چرھ کر رہا ہے۔ پھر آخرقوم اسرائیل کی وہ مخصوص فضیلت کیا تھی ؟ تاریخ کی زبان سے جواب ایک ہی ملتا ہے کہ وہ دولت یا اللہ کی اعلی ترین نعمت، مسلک توحید کی تھی۔ دنیا کی تاریخ کے جس دور میں ساری قومیں اور ساری نسلیں کم وبیش شرک میں مبتلا تھیں، یا اس کی طرف بہی چلی جارہی تھیں یہ نسل اسرائیل ہی ایک ایسی قوم تھی جو من حیث القوم توحید کی علمبردار ہی۔ عقیدہ توحید اور عقیدۂ رسالت میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ رسالت کی قائل صرف وہی قوم ہوگی، جس کا عقیدہ واضح و پختہ ہوگا۔ اور انبیاء ورسل، جہاں تک کسی نسل کا تعلق ہے، نسل اسرائیل ہی میں مسلسل پیدا ہوتے رہے۔ ہاں متفرق طور پر کسی دوسری نسل میں بھی کبھی کبھی پیدا ہوگئے ہوں، تو وہ اس کے منافی نہیں۔ ذکر یہاں افراد کا نہیں، نسل وقوم کا ہورہا ہے۔ دنیا کی ساری دوسری قوموں میں جس وقت ظہور ” اوتاروں “ کا ہورہا تھا، اور وہ قومیں عناصر پرستی، مظاہر پرستی، دیوتا پرستی، بت پرستی، غرض شرک ہی کی کسی نہ کسی شکل میں گرفتار تھیں، انبیاء ورسل اور ان کی تعلیمات کا چرچا صرف بنی اسرائیل میں تھا۔ ہندوستان کی آریہ نسل میں فلسفہ، ہندسہ، ریاضیات، معقولات کے ماہرین وعلماء، جیسے بھی پیدا ہوتے رہے ہوں، بہرحال حلولیت کا شرک اس میں حلول ہی کیے ہوئے تھا، اور توحید و رسالت کی دعوت صرف سامی نسل کی شاخ اسرائیلی کے حصہ میں آئی تھی۔ موجودہ یہود کو بھی اپنے اسلاف کی یہ امتیازی حیثیت یاد ہے۔ جیوش انسائیکلوپیڈیا میں ہے :۔ ” بنی اسرائیل پر خاص فرض عائد ہوا تھا کہ توحید باری کی دعوت دیتے رہیں۔ اور آفتاب پرستی ، ، ماہتاب، پرستی، کواکب پرستی کے خلاف جہاد کرتے رہیں “۔ (جلد 6 ۔ صفحہ 5) ” بنی اسرائیل کا واحد فریضہ دنیا میں خدا کا گواہ بننا تھا “۔ (جلد نمبر 6 صفحہ 2) ” مخلوقات کے مراتب مختلف ہیں ذی شعور مخلوق، غیر ذی شعور سے فائق و برتر ہے۔ انسان فائق ترین ہے۔ انسانوں میں بنی اسرائیل بحیثیت موحد پر ستار ان حق کے مشرکوں سے افضل و بالاتر ہیں “۔ (جلدنمبر 6 صفحہ 1 1) ” سیاسی قوموں میں سب سے پہلے عبرانیوں ہی کی رسائی اپنے انبیاء کی تعلیم سے توحید باری تک ہوئی “۔ (جلد 8 ۔ صفحہ 659) مسیحی فرنگی مؤرخین نے بھی اسی تاریخی حقیقت کا اعادہ کیا ہے ہسٹورینس ہسٹری آف دی ورلڈ میں ہے :۔ ” دین توحید کی بنیاد بنی اسرائیل ہی میں پڑی “۔ (جلد 2 ۔ صفحہ 3) ” انسانیت کی موجودہ روحانی کائنات، عام اس سے کہ مسیحی ہو یا اسلامی، سب کی تہ میں اسی عقیدہ توحید کی باز گشت ہے جس کی دعوت سب سے پہلے اسرائیلیوں نے دی تھی “۔ (جلد 2 ۔ صفحہ 3) خود توریت کی تصریحات بھی اس سلسلہ میں نظر انداز کرنے کے قابل نہیں :۔ ” تو خداوند اپنے خدا کے لیے ایک پاک قوم ہے۔ خداوند تیرے خدا نے چن لیا کہ تو سب گروہوں کی نسبت جو زمین پر ہیں اس کے خاص گروہ ہو۔ خداوند نے تم سے محبت رکھی اور تمہیں برگزیدہ کیا، نہ اس لیے کہ تم اور گروہوں سے گنتی میں زیادہ تھے۔ کیونکہ تم سب گروہوں سے کمتر تھے بلکہ اس لیے کہ خداوندعالم نے تم سے محبت رکھی “۔ (استثناء 7:6، 7) ” خداوند کو خوش آیا کہ تمہارے باپ دادؤں سے محبت رکھے۔ اس لیے ان کے بعد ان کی اولاد کو یعنی تم کو سارے گروہوں کی بہ نسبت پہلے برگزیدہ کیا۔ جیسا کہ آج ہے۔ “ (استثناء 10: 15) ” تم میرے گواہ ہو، خداوندفرماتا ہے اور میرا بندہ بھی جسے میں نے برگزیدہ کیا۔ سو تم میرے گواہ ہو۔ “ (یسعیاہ۔ 43: 10، 1 1) قوم بنی اسرائیل اور امت موسوی دو بالکل اور قطعا علیحدہ چیزیں ہیں۔ اور آیت کی تفسیر میں امت موسوی اور امت محمدی کے تقابل وتفاضل کا کوئی سوال ہی سرے سے نہیں پیدا ہوتا۔ اس سوال کا یہاں اٹھانا قطعا بےضرورت بلکہ بےمحل ہے۔ افضلیت بنی اسرائیل کو کسی خاص زمانہ کے اندر محدود ومقید کرنے کی ضرورت ہمارے قدیم مفسرین کو محض اس لیے پیش آئی کہ ” امت موسوی “ اور ” قوم اسرائیل “ کے درمیان خلط ہوگیا، اور دونوں کا عظیم الشان فرق نظر میں نہ رہا۔ امت محمدی ﷺ کی افضلیت بلحاظ دین و عقیدہ ہے، نہ کہ کسی نسلی یا قومی اعتبار سے اور آیت میں ذکر ایک خاص نسل کی افضلیت کا ہے۔ اور کوئی نظریہ یا اجتہادی مسئلہ نہیں۔ ایک مسلم تاریخی حقیقت ہے کہ جس وقت دنیائے تہذیب طرح طرح کی مشرکانہ وہم پرستیوں میں مبتلا تھی۔ موحد اعظم ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی نسل کی ایک شاخ توحید کا علم بلند ہوئے تھی۔ ہمارے مفسرین میں سے بھی کسی کسی کے ذہن کی رسائی اس حقیقت تک ہوگئی ہے۔ اور وہ صاف لکھ گئے ہیں کہ نسل اسرائیلی کی افضیلت اس میں سلسلہ نبوت وانبیاء کے لحاظ سے تھی۔ بما جعل فیھم من الانبیاء وھذا خاصۃ لھم ولیست لغیرھم (قرطبی) ۔
Top