Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 50
وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ : اور جب فَرَقْنَا : ہم نے پھاڑ دیا بِكُمُ : تمہارے لیے الْبَحْرَ : دریا فَاَنْجَيْنَاكُمْ : پھر تمہیں بچا لیا وَاَغْرَقْنَا : اور ہم نے ڈبو دیا آلَ فِرْعَوْنَ : آل فرعون وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ : اور تم دیکھ رہے تھے
: اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا تھا،168 ۔ پھر ہم نے تمہیں نجات دے دی اور فرعون والوں کو غرق کردیا، درآنحالیکہ تم دیکھ رہے تھے،169 ۔
168 ۔ فرعون اور مصری گورنمنٹ کے مظالم سالہا سال تک برداشت کرنے کے بعدبالآخر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قیادت میں ساری قوم اسرائیل نے مصر کی سکونت ترک کرکے اپنے آبائی وطن شام و فلسطین کو چلا جانا طے کرلیا۔ سفر مصری حکومت سے چھپ چھپا کر رات کیو قت شروع کیا۔ زمانہ وہ تھا کہ نہ آج کل کی سی باقاعدہ سڑکیں تھیں، نہ راستوں میں لمپ لالٹین، شب کی تاریکی میں اسرائیلی راستہ بھول گئے۔ اور بجائے اس کے کہ شمال کی طرف کچھ اور آگے بڑھ کر اپنے دائیں پر مشرق کی طرف مڑتے، پہلے ہی ادھر گھوم پڑے۔ ادھر فرعون کو خبر ہوگئی، اور وہ اپنے لشکر کی کمان خود کرتا ہوا تیزی سے تعاقب میں آپہنچا۔ اب اسرائیلیوں کے سامنے یعنی مشرق کی جانب سمندر تھا۔ اور دائیں بائیں شمال وجنوب میں پہاڑیاں تھیں، اور پشت پر یعنی مغرب کی جانب مصری لشکر۔ قرآن مجید میں اس تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ توریت میں اس کو خروج بنی اسرائیل سے موسوم کیا ہے۔ زمانہ کی تعیین جزم کے ساتھ مشکل ہے۔ جدید ترین تحقیقات کے مطابق پندرھویں صدی قبل مسیح (علیہ السلام) کا وسط قرار پایا ہے۔ بلکہ بعض نے جرأت کرکے سنہ بھی متعین کردیا ہے۔ 1447 ق۔ م۔ (آیت) ” بکم “ تمہارے لیے، یعنی تمہیں بچانے کے لیے، تمہیں راستہ دینے کے لیے۔ اے فرقنا لکم (معالم) اے فرقنا بسببکم وبسبب انجائکم (کشاف) فرقنا البحر۔ بشر کے محدود نقطہ نظر اور انسان کے ناقص علم کے اعتبار سے جو مستعبد، خلاف معمول اور حیرت انگیز واقعہ کسی نبی کی تائید میں، ظاہری مادی اسباب سے بےتعلق، ظہور میں آئے، اسے اصطلاح میں معجزہ کہتے ہیں، ایسے کسی واقعہ کو جس کا ثبوت رؤیت یا روایت ، ، مشاہدہ یا نقل صحیح سے مل جائے، ” خلاف عقل “ کہہ کر اس کے امکان سے انکار کر بیٹھنا خود ایک انتہائی نادانی اور بےعقلی ہے۔ تاریخی عجائب سے آخر تاریخ لبریز ہی ہے۔ اور خوارق، نوادر، حوادث عجیبہ سے دنیا کا کون سا گوشہ، زمانہ کا کوئی سا دور خالی رہا ہے ؟ یا آج کس دن، کس تاریخ کے اخبارات خالی رہتے ہیں ؟ زیادہ سے زیادہ ایسے واقعات کو خلاف معمول، خلاف عادت عامہ کہا جاسکتا ہے۔ اور ان کے روایت ثبوت کا مطالبہ یقیناً کرنا چاہیے۔ راویوں پر جرح بھی خوب کرلینا چاہیے۔ لیکن اس سے تجاوز کرکے ان کے نفس امکان میں شک کرنا یا انہیں خلاف عقل یا محال قرار دینا خود اپنی کم عقلی کا اظہار کرنا ہے۔ استبعاد جو کچھ بھی ہے، وہ تو صرف انسانی معیار سے ہے، انسان کے بہت ہی محدود ومختصررقبہ علم و تجربہ کے اعتبار سے ہے، ورنہ جو قادر مطلق ہے، اس کے لیے تو ” حسب معمول “ اور ” خلاف معمول “ سب ایک ہے اور ” غریب “ و،” مانوس “ کا، فرق اس کے لیے کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔” وقوع “ اور ” امکان “ دو بالکل الگ چیز کا ہے۔ اللہ کے دائرہ قدرت کے اندر ہر بڑی سے بڑی چیز ہے، ناممکن تو اس کے لیے کوئی سی بھی چیز نہیں، لیکن وقوع پر یقین کرنے کے لیے ضرورت شاہدوں کی ہوتی ہے، اور جو واقعہ جس قدر عجیب اور معمول عام سے ہٹا ہوگا، اسی نسبت سے اس پر یقین لانے کے لیے شہادت بھی زبردست ہونی چاہیے۔ یہ تو معجزات پر اصولی گفتگو تھی۔ باقی یہاں جس ” فرق البحر “ کا ذکر ہے، تو یہ سمندر کا پھٹ جانا اور درمیان میں خشکی کی راہ بن جانا کچھ ایسا زیادہ خارق عادت ہے بھی نہیں، کہ اس کی نظیر کہیں ملتی ہی نہ ہو، بحری زلزلہ کے وقت ایسی صورتیں پیش آتی ہی رہتی ہیں۔ چناچہ جنوری 1934 ء (رمضان 1352 ھ) میں جو عظیم الشان زلزلہ بہار اور اطراف بہار میں آیا، اس موقع پر صوبہ کے صدر مقام، شہر پٹنہ میں دن دہاڑے کوئی ڈھائی بجے کے وقت، ایک مجمع کثیر نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ گنگا جیسے وسیع و عریض دریا کا پانی چشم زدن میں غائب ہوگیا، اور اتنے چوڑے پاٹ میں بجائے دریا کے دھارے کے خشک زمین نکل آئی اور یہ حیرت انگیز اور دہشت ناک منظر چند سیکنڈ نہیں، چار پانچ منٹ تک قائم رہا، یہاں تک کہ دریا اسی برق رفتاری کے ساتھ یک بیک زمین سے ابل کر پھر جاری ہوگیا ! واقعہ کی مفصل رواداد ایک وقائع نگار کے قلم سے، انگریزی روز نامہ پانیر (لکھنو) کی 20 جنوری 1934 ء کی اشاعت میں درج ہے ! (آیت) ” البحر “ بحر سے مراد یہاں دریائے نیل نہیں جیسا کہ بعض ثقات کو دھوکا ہوگیا ہے۔ بلکہ بحرقلزم (یا بحراحمر) مراد ہے۔ دریائے نیل تو بنی اسرائیل کے مسکن اور محلہ سے مغرب کی طرف واقع تھا۔ اور اسرائیلیوں کا راستہ شام کے لیے مشرق کی طرف تھا۔ نیل سے اس راستہ کو دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ مصر سے شام کی راہ کے قریب بحر قلزم تھا۔ اسی کے تنگ شمالی سرے کی جانب یہاں اشارہ ہے۔ مصر کے مشرق میں جہاں اب نہر سویز کھد گئی ہے، اس سے متصل جنوب میں، نقشہ میں سمندر دو مثلثوں کی شکل میں تقسیم نظر آئے گا۔ یہاں ان میں سے مغربی مثلث مراد ہے۔ اسرائیلیوں نے اسی کو عبور کر کے جزیرہ نمائے سینا میں قدم رکھا تھا۔ 169 ۔ اسرائیلی اپنے کو ہر طرف سے محصورپاکر قدرۃ سخت پریشان ہوئے۔ لیکن رہنمائی اللہ کے ایک پیمبر کررہے تھے۔ آپ نے وحی الہی کے اشارہ سے فرمایا کہ بلاتوقف سمندر میں چل پڑو۔ سمندر کا پانی سمٹ کر دونوں طرف پہاڑ جیسی دیواروں کی طرح کھڑا ہوگیا۔ درمیان میں خشک راستہ پیدا ہوگیا۔ اسرائیلیوں کا قافلہ عبور کرگیا۔ اتنے میں فرعونی بھی لب ساحل پہنچ گئے۔ اور یہ منظر دیکھ کر وہ بھی پیدل اور سوار خشک سمندر میں درآئے۔ لیکن ابھی درمیان ہی میں تھے کہ پانی کی وہ کھڑی ہوئی دیواریں آنافانا آپس میں مل گئیں۔ اور سمندر کا پانی حسب سابق رواں ہوگیا۔ اور دیکھتے دیکھتے فرعون مع اپنے لاؤلشکر کے غرق ہو کر رہ گیا۔ توریت میں تصریحات ذیل ملتی ہیں : ” پھر موسیٰ نے دوبارہاتھ بڑھایا اور خداوندنے بہ سبب بڑی پوربی آندھی کے تمام رات میں دریا کو چلایا۔ اور دریاکو سکھادیا۔ اور پانی کو دو حصہ کیا۔ اور بنی اسرائیل دریا کے بیچ میں سے سوکھی زمین پر ہو کر گزر گئے۔ اور پانی کی ان کے داہنے اور بائیں دیوارتھی۔ “ (خروج۔ 14 ۔ 2 1 ۔ 22) ” بنی سرائیل خشک زمین پر دریا کے بیچ میں چلے گئے اور پانی کی ان کے داہنے اور بائیں دیوارتھی، سو خداوند نے اس دن اسرائیلیوں کو مصریوں کے ہاتھ سے یوں بچایا۔ “ (خروج۔ 14:29 ۔ 30) اور مصریوں نے پیچھا کیا اور ان کا پیچھا کیے ہوئے وہ اور فرعون کے سب گھوڑے اور اس کی گاڑیاں اور کے سوار دریا کے بیچوں بیچ تک آئے۔۔۔ اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ دریا پر بڑھایا۔ اور دریا صبح ہوتے ہی اپنی اصلی قوت پر لوٹا اور مصری اس کے آگے بھاگے اور خداوند نے مصریوں کو دریا میں ہلاک کیا۔ اور پانی پھرا۔ اور گاڑیوں اور سواروں اور فرعون کے سب لشکر کو جو ان کے پیچھے دریا میں آئے تھے چھپا لیا۔ اور ایک بھی ان میں سے باقی نہ چھوٹا۔ “ (خروج۔ 14:24 ۔ 28) واقعہ کا زمانہ جدید ترین اثری تحقیق کے مطابق۔ 1447 ق۔ م یا اس کے لگ بھگ قرارپاتا ہے۔ (آیت) ” وانتم تنظرون “ فقرہ غیرضروری یا برائے بیت نہیں بنی اسرائیل پر اس حقیقت کا پرزور طریقہ پر اعلان مقصود ہے کہ اپنے ایسے پر قوت دشمن کی ہلاکت و بربادی کا نظارہ محض تائید خداوندی سے تم نے اپنی آنکھوں سے کرلیا۔ توریت میں ہے :۔ اسرئیلیوں نے مصریوں کی لاشیں دریا کے کنارہ پر دیکھیں “ (خروج۔ 14 ۔ 3 1)
Top