Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارے قلوب محفوظ ہیں،305 ۔ (نہیں) بلکہ اللہ نے ان پر لعنت کر رکھی ہے ان کے کفر کے باعث،306 ۔ اور وہ ایمان بہت ہی تھوڑا رکھتے ہیں،307 ۔
305 ۔ (اور دعوت اسلام ہمارے اوپر کچھ اثر نہیں کرسکتی۔” یہود فخریہ اور علانیہ کہتے تھے کہ یہ ” نئے پیغمبر “ کچھ بھی کر ڈالیں، ہم ان کے کہے میں نہیں آنے کے۔ ” غلف “ ممکن ہے کہ جمع غلاف کی ہو۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ ہمارے قلوب گنجینہ علوم ہیں۔ معارف موسوی سے لبریز ہیں۔ ہمیں ضرورت کسی نئی تعلیم کے قبول کرنے کی نہیں۔ ھی جمع غلاف (راغب) اے ھی اوعیۃ للعلم تنبیھا انا لا نحتاج ان نتعلم منک فلنا غنیۃ بما عندنا (راغب) یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اغلف کی جمع ہو۔ اور اغلف کہتے ہیں غیر مختون کو، اس کو جس کا ختنہ نہ ہوا ہو۔ قیل ھو جمع اغلف (راغب) مستعارا عن الاغلف الذی لم یختن (کشاف) قیل واصلہ ذوالقلفۃ الذی لم یختن (روح) ” مختون “ و ” نامختون “ کہنے کا محاورہ یہود کی زبان پر عام طور سے چڑھا ہوا تھا کبھی اپنے کو ” نامختون “ کہتے، کبھی اپنے دل وجسم کو یا کبھی اپنے اعضاوجوارح کو، توریت میں بار بار اس کا استعمال ہوا ہے مثلا ” بس میں جو نامختون ہونٹ رکھتا ہوں، فرعون میری کیوں کر سنے گا “ (خروج۔ 6: 12) ” تب دل کے نامختون اور جسم کے نامختون اجنبی زادوں کو میرے مقدس میں لائے۔ “ (حزقی ایل۔ 44:7) بلکہ کہیں کہیں انجیل میں بھی آیا ہے۔ مثلا ” اے گردن کشو، اور دل اور کان کے نامختونو ! تم ہر وقت روح القدس کی مخالفت کرتے ہو “۔ (اعمال۔ 7:5 1) قرآن کا یہ انداز بیان بھی ایک اعجازی پہلو رکھتا ہے کہ جب یہود کا قول نقل کیا، تو زبان بھی انہیں اختیار کی۔ 306 ۔ قرآن مجید یہود کے فخریہ کے جواب میں کہتا ہے۔ کہ جس ” محفوظیت “ پر انہیں اس قدر غرہ ہے یہ کوئی فخروناز کی چیز نہیں، یہ تو ایک نشان ہے صداقت سے ان کے دور ہوجانے اور حق سے ان کے بعد پیدا ہوجانے کا۔ اور یہی حقیقت ہے لعنت کی، لعنت پر حاشیہ پہلے گزر چکا ہے کہ وہ نام ہے رحمت الہی سے بعد وہجران کا، (آیت) ” بکفرھم “ اس میں یہ بتا دیا کہ یہ ملعونیت اور مغضوبیت جو ان پر طاری ہوگی ان کے کفر اختیاری کے باعث ہوگی۔ اللہ کے پیغمبر سے مخالفت وعناد پر اصرار رکھنے کے باعث ہوگی، ب سببیہ ہے۔ اے بسبب کفر ھم (ابو سعود) لعنت کا محاورہ توریت میں بہت عام ہے۔ صرف ایک مقام کا اقتباس بہ طور نمونہ ملاحظہ ہو :۔ یہ ساری لعنتیں تجھ پر اتریں گی اور تجھ تک پہنچیں گی، تو شہر میں لعنتی ہوگا اور تو کھیت میں بھی لعنتی ہوگا، تیرا ٹوکرا اور تیرا کٹھرا لعنتی ہوگا، تیرے بدن کا پھل اور تیری زمین کا پھل تیرے گائے بیل کی بڑھتی اور تیرے بھیڑ بکری کے گلے لعنتی ہوجائیں گے تو بھیتر آنے کے وقت لعنتی ہوگا اور تو باہر جانے کے وقت لعنتی ہوگا۔ خداوند ان سارے کاموں میں جن میں تو کرنے کے لیے ہاتھ لگا دے تجھ پر لعنت اور حیرت اور ملامت نازل کرے گا “۔ (استثناء 28: 15 ۔ 20) لعنت انجیل میں بھی منقول ہے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زبان سے، نہ صرف کاہنوں اور فریسیوں کے لیے بلکہ انجیر کے خشک درخت کے لیے بھی۔ 307 (اور یہ تھوڑا یا برائے نام ایمان نجات کے لیے کافی نہیں) (آیت) ” قلیلا “ یہاں ایمان کی صفت ہے جو ایمان نجات کے لیے ضروری ہے اور جس کا حکم ہر مکلف کو ہے۔ اس کے متعدداجزاء ہیں، یہود کا ایمان جو کچھ بھی تھا، صرف ان میں سے بعض پر تھا۔ اے لا یؤمنون الا بقلیل مما کلفوا بہ (کبیر) قلیلا صفۃ مصدر محذوف اےایمانا قلیلا یؤمنون (مدارک) (آیت) ” مایؤمنون “ میں ما مزیدہ ایمان کی قلت پر زور دینے کے لیے ہے۔ یعنی بہت ہی تھوڑا ایمان۔ مامزیدہ للمبالغۃ فی التقلیل (بیضاوی) مامزیدۃ للمبالغۃ (ابوسعود) (آیت) ” قلیلا “۔ صفت مومن کی بھی ہوسکتی ہے۔ مفہوم اس صورت میں یہ ہوگا کہ ان میں سے بہت ہی تھوڑے ایمان لاتے ہیں۔ چناچہ بعض اکابر ادھر بھی گئے ہیں۔ اے لایومن منہم الا قلیل (ابن جریر، عن قتادۃ) قال بعضھم فقلیل من یؤمن منہم (ابن کثیر) اور امام رازی (رح) نے ترجیح اسی آخری ترکیب کو دی ہے۔ لیکن محاورہ میں قلیل کا استعمال نفی مطلق کے موقع پر بھی ہوتا ہے۔ یجوز ان تکون القلۃ بمعنی العدم (کشاف) معنی اس صورت میں یہ ہوں گے کہ یہ ایمان سے بالکل خالی ہیں۔ والمعنی فیہ نفی جمیعہ (ابن جریر) معناہ لایومنون اصلا لا قلیلا ولا کثیرا۔
Top