Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
اور کچھ لوگ ایسے (بھی) ہیں جو کہتے ہیں22 ۔ کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ اور روز آخرت پر حالانکہ وہ (بالکل ہی) ایمان والے نہیں23
22 (فحض زبان سے، شرکت قلب کے بغیر) من۔ واحد تثنیہ، جمع تینوں موقعوں پر یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ حالت افراد میں لحاظ اس کی لفظی حیثیت کا کیا جاتا ہے، اور جمع میں نظر اس کے معنی ومفہوم پر رکھی جاتی ہے۔ اب تک قرآن مجید نے ذکر وقسم کے انسانوں کا کیا ہے۔ ایک مومن، فرمانبردار، قانون الہی کے مطیع۔ دوسرے کافر، نافرمان، قانون الہی کے منکر وباغی۔ اب ذکر ایک تیسری صنف کا شروع ہورہا ہے۔ ہوتے یہ بھی کافر ومنکر ہی ہیں، لیکن اپنے کفر و انکار پر پردہ مکروفریب کا ڈالے رکھتے ہیں۔ یعنی زبان پر دعوی اسلام رکھتے ہیں لیکن دل میں کفر خالص۔ زبان سے اقرار ایسا کہ جس میں قلب کی تصدیق کسی درجہ میں بھی شامل نہیں، ان ننگ انسانیت انسانوں کو شریعت کی اصطلاح میں منافق کہتے ہیں، نفاق کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اعلان، و اظہار بھلائی کا کرتا پھرے، اور شرکو اندر ہی اندر چھپائے رکھے۔ النفاق ھو اظھار الخیر و اسرار الشر (ابن کثیر) پھر نفاق کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک نفاق حقیقی یا اعتقادی۔ جس میں ایمان سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ اور اس کی سزا ابدی خلود جہنم ہے۔ دوسرا نفاق عملی یا مجازی۔ اس میں ایمان کا استحضار نہیں رہتا، اور انسان گناہ پر بےدریغ جری ہوجاتا ہے۔ ھو انواع اعتقادی وھو الذی یخلد صاحبہ فی النار وعملی ھو من اکبر الذنوب (ابن کثیر) سورة بقر مدنی ہے۔ اور مدینہ میں منافقین کثرت سے تھے۔ اسلام سے عداوت میں اور رسول اسلام سے عناد میں، یہ لوگ کھلے ہوئے کافروں سے کچھ کم نہ تھے۔ شاید کچھ بڑھے ہی ہوئے ہوں، نفاق یعنی جھوٹا اظہار اسلام مکہ میں نہ تھا۔ بلکہ مکہ میں تو اس کے برعکس صورت حال یہ تھی کہ لوگ مومن ہو کر بھی اپنے ایمان کو چھپائے رکھتے، اور بظاہر کافروں ہی میں شامل رہتے۔ نفاق کی بنیاد مدنیہ میں پڑی، وہ بھی غزوۂ بدر کے بعد، جب اسلام کو روز بروز دنیوی عظمت و شوکت حاصل ہونی شروع ہوگئی، اس وقت بعض لوگوں نے اپنے کو محض تقیہ شائبہ، ایمان وصداقت مومن ومسلم کہنا شروع کردیا۔ اس پارٹی کا سرغنہ یا سرخیل بنوخزرج کا سردار عبداللہ بن ابی سلول تھا۔ اس کا اثرواقتدار حریف قبیلہ بنواوس پر بھی تھا۔ یہ اپنے وقت کا کامیاب ترین لیڈر تھا۔ یہاں تک کہ ساری آبادی اس کی سرداری پر متفق ہوچکی تھی۔ اور قریب تھا کہ اس کی بادشاہی کا اعلان ہوجائے، کہ یک بیک اسلام کے قدم مدینہ میں جم گئے۔ اس نے اپنی دکان اجڑتے دیکھی تو اپنے پیرو وں کے کان میں یہ افسوس پھونک دیا کہ زبان سے کلمہ اسلام کا پڑھتے جاؤ لیکن دل میں اپنے ہی عقائد پر جمے رہو۔ اوس خزرج کے علاوہ یہود کی بھی ایک غدار وضمیر فروش جماعت نے خوشی سے اس تحریک پر لبیک کہا۔ البتہ مکہ کا کوئی مہاجر اس میں شریک نہیں ہوا۔ ابن کثیر نے تفصیل سے لکھا ہے اور یہاں بھی زیادہ تر اس کی تلخیص ہے۔ 23 یعنی ان کے دل میں ایمان کا گزر ذرہ برابر بھی نہیں، ایمان انہیں چھو بھی نہیں گیا۔ یقولون ذلک قولا لیس وراء ہ شیء اخر (ابن کثیر) انہم لیسوا من الایمان فی شیء (بیضاوی) (آیت) ” ب مومنین۔ حرف باء تاکید کے لیے ہے۔ اکدالنفی بالبآء (بیضاوی) ظاہر سیاق کا تقاضا تھا کہ فعل ماقبل (آیت) ’ ’ قالوا امنا “ کی تردید وتغلیط میں (آیت) ” ماامنوا “ یا اسی قسم کا کوئی اور فعل ماضی میں لایا جاتا۔ لیکن یہاں تاکید اور زور کے لیے بجائے فعل کے اسم فاعل لایا گیا، کہ ان لوگوں سے نفی ایمان کی، ماضی، حال، مستقل ہر زمانہ سے متعلق نکل آئے۔ وفیہ من التوکید والمبالغۃ مالیس فی غیرہ (کشاف) تاکیدا او مبالغۃ فی التکذیب لان اخراج ذواتھم من عداد المومنین ابلغ من نفی الایمان عنہم فی ماضی الزمان (بیضاوی) کان ذلک مبالغۃ فی تکذیبھم (کبیر)
Top