Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 22
لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا١ۚ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ
لَوْ كَانَ : اگر ہوتے فِيْهِمَآ : ان دونوں میں اٰلِهَةٌ : اور معبود اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ لَفَسَدَتَا : البتہ دونوں درہم برہم ہوجاتے فَسُبْحٰنَ : پس پاک ہے اللّٰهِ : اللہ رَبِّ : رب الْعَرْشِ : عرش عَمَّا : اس سے جو يَصِفُوْنَ : وہ بیان کرتے ہیں
اگر ان دونوں (جگہوں) میں علاوہ اللہ کے کوئی معبود ہوتا تو یہ دونوں درہم برہم ہوگئے ہوتے،27۔ اللہ مالک عرش، پاک ہے ان امور سے جو یہ لوگ بیان کررہے ہیں،28۔
27۔ یعنی نظام عالم میں ابتری پڑجاتی، خدا کے تصور وتعریف ہی میں یہ امر داخل ہے کہ وہ مطلق لارادہ ومطلق الاختیار اور مالک کل ہو، اگر اس کے اختیارات یا اس کی ملک محدود ومقید ہوئی تو وہ خدا ہی کیوں کہلائے گا، اس تعریف کو پیش نظر رکھنے کے بعد غور کیجئے کہ دو (یا زائد) خداؤں کے وجود کے معنی ہی کیا ہوسکتے ؟ ایک خدا کی ملک سے کوئی بھی جزو موجودات اگر باہر رہا، یا اسے اپنا ارادہ کسی مصلحت سے مغلوب کرنا پڑا، یا اپنے موجودات پر کسی ضرورت سے پابندی عائد کرنی پڑی تو اسکے خدا باقی رہنے کا امکان ہی کیا رہ گیا ؟ تصادم وتراجم کی تکذیب کررہا ہے سو اس نظام کائنات کا وجود جس کے آگے بشری صناعوں کی بڑی بڑی صناعیاں گرد ہیں، دلیل قاطع ہے توحید صانع عالم پر، جس دلیل کو قرآن کریم نے اس قدر سادہ طور پر ادا کردیا، اسی کو متکلمین نے حسن صنعت ونظم کائنات سے توحید صانع پر استدلال ککا لقب دے کر اس سے بڑے بڑے کام لئے ہیں اور اسے شرح وبسط سے اور اپنی اصطلاحات کے ساتھ لکھا ہے اور اس کو برہان تمانع کالقب دیا ہے۔ (آیت) ” فیھما “۔ سے مراد ظاہر ہے کہ آسمان اور زمین ہیں۔ (آیت) ” لفسدتا “۔ قیامت میں جو دور فنا وہلاکت کا آئے گا، وہ ایک نظم کے ماتحت اور ایک ضابطہ معین کے موافق ہوگا۔ (جیسا کہ آج بھی افراد اپنے وقت معین پر ہلاک ہوتے رہتے ہیں) اس پر اطلاق ” فساد “ کا کسی طرح نہیں ہوسکتا۔ 28۔ عرش مخلوقات میں خود بھی سب سے اعظم و اشرف ہے، پھر جو اس کا بھی مالک ورب ہو، اس کی عظمت کا کیا ٹھکانا ہے ! اللہ کی صفت یہاں (آیت) ” رب العرش “۔ لا کر اس کی بےانتہاعظمت اور شرک کی بےعقلی کو اور زیادہ نمایاں کردیا۔
Top