Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 3
لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى١ۖۗ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ۖۗ هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۚ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ
لَاهِيَةً : غفلت میں ہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاَسَرُّوا : اور چپکے چپکے بات کی النَّجْوَي : سرگوشی الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا (ظالم) هَلْ : کیا ھٰذَآ : یہ اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تم ہی جیسا اَفَتَاْتُوْنَ : کیا پس تم آؤگے السِّحْرَ : جادو وَاَنْتُمْ : اور (جبکہ) تم تُبْصِرُوْنَ : دیکھتے ہو
ان کے دل (اس کی طرف سے) بےتوجہ۔ اور یہ لوگ یعنی ظلم کار اور اپنی سرگوشیوں کو چھپاتے رہتے ہیں،2۔ کہ یہ تو محض تم جیسے ایک آدمی ہیں تو کیا تم جادو (کی بات) سننے کو جاؤ گے درآنحالیکہ تم سوجھ بوجھ رکھتے ہو،3۔
2۔ (آیت) ” الذین ظلموا “۔ سے مراد اسلام کے خلاف سازش کرنے والے منکرین ہیں۔ ابوجھل و اصحابہ (ابن عباس ؓ اور آج بھی جو لوگ عداوت اسلام و رسول اسلام میں اسی ابو جہلی روش پر چلیں اسی میں شامل ہیں، سازش کے لئے اخفاء لازمی ہے، اس لئے یہ لوگ اپنی کمیٹیوں، کانفرنسوں، مشورت کے جلسوں کو چھپا چھپا کر کرتے تھے۔ (آیت) ” مایاتیھم ...... یلعبون “۔ ہر تازہ نشان کو، بجائے عنوان عبرت وتذکیر کے سرمایہ تفریح و تمسخر بنالینا منکرین کا عام دستور اگلوں پچھلوں سب میں مشترک ہے۔ (آیت) ” لاھیۃ قلوبھم “۔ یعنی موعظہ ونصیحت کو اس کان سننا اور اس کان اڑا دینا یہ آخرت فراموشی ہی سے پیدا ہوتا ہے جس طرح جاہلیت قدیم میں عام تھا، آج جاہلیت جدید میں بھی رائج ہے۔ ان کے علوم وفنون میں، سائنس میں، آرٹ میں، التزام اس کا رہتا ہے کہ کوئی شے بھی آخرت کی یاد دلانے والی نہ آجانے پائے۔ اور یہ آخرت فراموش نظام جو کہنا چاہیے کہ ساری مہذب ونیم مہذب دنیا پر مسلط ومستولی ہوچکا ہے۔ اس نے لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمانوں کو بھی آہستہ آہستہ دین فراموش وآخرت فراموش بنادیا۔ ذکر رسول تو محفل میلاد وغیرہ کے نام سے بعض طبقوں میں خواہ رسما سہی، پھر بھی قائم ہے۔ آخرت کی ذمہ داری اور یوم الحساب کا تذکر ہ، اتنا بھی کہیں نہ سنائی دے گا۔ (آیت) ” لاھیۃ قلوبھم دین کے معاملات میں غیر ذمہ داری کی ہوا ہر سر میں سمائی ہوئی ہے۔ (آیت) ” اسروا النجوی “۔ نجوی میں تو خود ہی پہلواخفاء کا شامل ہے۔ (آیت) ” اسروا “۔ کے لفظ نے اس میں مزید تاکید اور زور پیدا کردیا۔ معناہ بالغوا فی اخفاءھا وجعلوھا بحیث لایفطن احد لتناجیھم (کبیر) 3۔ منکرین ومشرکین عرب اپنے میں سے کسی کو کمزور ومذبذب پاکر اس سے کہتے تھے کہ جو رسالت کے مدعی ہیں، ان میں بات ہی کونسی نئی اور ہم سب سے انوکھی ہے۔ یہ نہ کوئی دیوتا ہیں، نہ کوئی اوتار، نہ کسی اور طرح پر فوق البشر، جیسے انسان ہم تم سب ویسے ہی انسان یہ بھی، ان میں بشریت کے علاوہ اور بشریت سے زیادہ ہے کیا، جو ہم ان کا دین اختیار کریں اور ان کی راہ پر چلنے لگیں، اور ان کے کلام قرآن میں جو اثر تم پاتے ہو وہ تو تمامتر ثمرہ ان کے سحر ساحری کا ہے۔ سو کیا تم سوجھ بوجھ رکھ کر ہوش و حواس رکھتے ہوئے بھی ادھر ادھر جاؤ گے ؟ ....... یہ سب توضیح انہی سرگوشیوں کی ہے جن کا ذکر ابھی اوپر آچکا ہے۔
Top