Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 63
قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖۗ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْئَلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ فَعَلَه : اس نے کیا ہے كَبِيْرُهُمْ : ان کا بڑا ھٰذَا : یہ فَسْئَلُوْهُمْ : تو ان سے پوچھ لو اِنْ : اگر كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ : وہ بولتے ہیں
آپ نے) کہا کہیں اس نے نہ کی ہو ان کے اسی بڑے نے سو انہیں سے پوچھ دیکھو اگر یہ بولتے ہوں،80۔
80۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طنزیہ انداز گفتگو شروع ہی سے ظاہر ہے۔ اسی لب و لہجہ میں آپ نے اس وقت بھی فرمایا کہ ” جی اور کیا اور کہیں ان سے بڑے ٹھاکر جی ہی نے یہ حرکت نہ کی ہو۔ آپ انہیں سے کیوں نہیں دریافت کرلیتے ؟” حدیث صحیح میں ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ کے اس قول کو کذب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور اس سے منکرین حدیث کو بخاری، مسلم، ترمذی کے خلاف ایک طومار کذب باندھنے کا موقع مل گیا ہے۔ حالانکہ بالکل صاف ظاہر ہے کہ یہ کذب صرف صورۃ تھا۔ نہ حضرت (علیہ السلام) کی نیت کسی غلط بات کہنے کی تھی نہ اس کلام سے اس بڑے مجمع میں کسی ایک متنفس کو بھی دھوکا یا مغالطہ ہوا۔ مقصود تمامتر مشرکین پر حجت الزامی قائم کرنا تھی، اور اس کے لئے آپ اعلان پیشتر سے کر بھی چکے تھے۔ (آیت) ” تاللہ لاکیدن اصنامکم بعد ان تولوا مدبرین “۔ یہ تو صرف ایک بلیغ، مؤثر، خطیبانہ پیرایہ گفتگو تھا موقع کے مناسب حال، ایسا کذب (اور کذب عربی میں ہرگز اردو کے جھوٹ کے مترادف نہیں بلکہ اس سے کہیں وسیع معنی رکھتا ہے) ہرگز عصمت انبیاء کے منافی نہیں۔ امام رازی (رح) نے ایک توجیہ یہ بھی نقل کی ہے کہ فاعل (آیت) ” کبیرھم ھذا “۔ کو نہ ماناجائے بلکہ بجائے اس کے تقدیر کلام یوں مانی جائے۔ فعلہ من فعلہ یعنی یہ حرکت تو کی جس نے کی اور (آیت) ” کبیرھم ھذا “ کا تعلق صرف عبادت اللہ سے جوڑا جائے۔ انہ کنایۃ عن غیر مذکور اے فعلہ من فعلہ (کبیر) اور کسائی نحوی سے منقول ہے کہ وہ (آیت) ” بل فعلہ “۔ پر پورا وقف کرلیتے تھے۔ اور (آیت) ” کبیرھم ھذا “۔ سے نیافقرہ شروع کرتے تھے۔ یروی عن الکسائی انہ کا یقف عند قولہ بل فعلہ ثم یبتدی کبیرھم ھذا (کبیر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ کسی مصلحت دینی کے سبب سے بعض بزرگوں سے جو کلام بطور تو ریہ منقول ہے۔ اس کی اصل یہی آیت ہے۔
Top